اسلام آباد: ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانےکی درخواستوں پر سماعت کے دوران عدالت نے سیاسی جماعتوں کو 4 بجے تک مذاکرات کا وقت دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔ ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کرانےکی درخواستوں پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔ الیکشن کی تاریخ پر سیاسی اتفاق رائے کے لیے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سیاسی قائدین کو آج طلب کیا تھا.
آج سماعت کے آغاز میں درخواست گزار سردارکاشف کے وکیل شاہ خاور نےکہا کہ امید ہے تمام سیاسی جماعتیں ایک نکتہ پر متفق ہوجائیں گی، ایک ہی دن انتخابات سے سب مسائل حل ہوجائیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم عدالت کے ذریعے احکامات جاری کریں تو پیچیدگیاں بنتی ہیں، سیاسی جماعتیں افہام وتفہیم سے معاملات طےکرتی ہیں توبرکت ہوتی ہے، آج رمضان کی 29 ویں رات ہے، آج اپنا نیک کام شروع کر رہے ہیں، سب سے پہلےحکومت کو سنتے ہیں، ایک ساتھ انتخابات کے ون پوائنٹ ایجنڈے کابتائیں، انتخابات ایک ساتھ ہونے پرباری باری تمام سیاسی جماعتوں کو سنتے ہیں، سیاسی قائدین کے تشریف لانے پر مشکور ہوں، صف اول کی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے، قوم میں اضطراب ہے، قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہوجائےگا، وزارت دفاع نے بھی عمدہ بریفنگ دی، اٹارنی جنرل کو ایک ساتھ انتخابات کے معاملے پر دلائل دینا تھےلیکن وہ سیاست کی نذر ہوگئے۔
چیف جسٹس نےکہا کہ فاروق ایچ نائیک نے بھی کہا تھا ایک ساتھ انتخابات ہوں، ہم نے فاروق نائیک صاحب سےکہا تھا ہمارا بائیکاٹ تو نہ کریں، اخبار میں سابق صدر آصف زرداری کا بیان پڑھا، آصف زرداری کے مشکور ہیں انہوں نے ہماری تجویز سے اتفاق کیا، بڑی بات یہ ہےکہ ن لیگ نے بھی تجویز سے اتفاق کیا ہے۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ حکومتی جماعتوں کا پہلےبھی یہی موقف تھاکہ ایک ساتھ انتخابات ہونے چاہئیں، 90 دنوں کا وقت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ایکسپائر ہوچکا، حکومتی جماعتیں ایک ہی دن انتخابات کے معاملے پر مشاورت کر رہی ہیں، بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات بھی کی، آصف زرداری بھی اتحادیوں سے مشاورت کر رہے ہیں، عید الفطرکےفوری بعد اتحادیوں سمیت پی ٹی آئی سے سیاسی ڈائیلاگ کریں گے، ایک ہی روز انتخابات سے پرامن اور صاف شفاف انتخابات ممکن ہوں گے، سیاسی جماعتوں کو مسائل مل بیٹھ کر حل کرنے چاہئیں، پی ٹی آئی سے مذاکرات کریں گے تاکہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو، ہماری کوشش ہوگی ان ڈائیلاگ سے سیاسی اتفاق رائے پیدا ہو۔
مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ بہت مشکل ماحول ہے مگر پاکستان کےعوام کی تقدیرکا مسئلہ ہے، ہم یقین رکھتے ہیں مقابلےکے بجائے مکالمہ کرنا چاہیے، ہماری جماعت ایک روز انتخابات اور ڈائیلاگ کے لیے تیار ہے، ہم نے عید کے بعد اپنے رہنماؤں کا اجلاس بلایا ہے، اپوزیشن کےساتھ بیٹھ کرانتخابات کا حل نکالنے کے لیے تیار ہیں، ہم سیاست دانوں کی آپس میں دوستی ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ملک میں تلخی بہت بڑھی ہوئی ہے، ہماری جماعت نے سب سے پہلے اتحادی جماعتوں سے مشاورت کا آغازکیا،ہمیں یقین ہے سیاسی قوتیں بیٹھ کر سب تلخیاں ختم کریں گی، سپریم کورٹ کے شکرگزار ہیں جنہوں نے مذاکرات کی تجویز دی، پیپلزپارٹی نے ہمیشہ ملک کی سلامتی کے لیے بات کی۔
مسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ کا کہنا تھا کہ مجھے چوہدری شجاعت نے آج عدالت پیش ہونے کی ہدایت کی، ہم تو پہلے دن سے کہہ رہے ہیں ایک ہی دن میں الیکشن ہو، ہر صورت ایک دن انتخابات کو سپورٹ کریں گے، چیف جسٹس صاحب آپ نے صحیح فرمایا سیاسی لوگ خود معاملہ حل کریں۔
ایم کیو ایم کے رہنما صابر قائم خانی کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت نے ہمیشہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا احترام کیا، عدالت کےساتھ کھڑے ہیں، جو سب مل کر فیصلہ کریں گے قبول ہوگا، عیدکے بعد امید ہے سب مسائل کا حل نکل آئےگا، ایک ساتھ انتخابات اور سیاسی جماعتوں کے ڈائیلاگ کے حامی ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما اسرار اللہ ترین کا کہنا تھا کہ سیاسی ڈائیلاگ ہونا چاہیے، ایک ہی دن انتخابات سے سکیورٹی سمیت سب مسائل حل ہوجائیں گے، انتخابات ایک دن ہونا ضروری ہیں ورنہ بلوچستان چھوٹے صوبے کے طور پر متاثر ہوگا۔
تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی ایک سیاسی رائے ہے اور ایک قانونی، قانونی رائے میں آئین کے تحت 90 دن میں انتخابات لازم ہیں، تحریک انصاف صرف انتخابات چاہتی ہے، میری جماعت انتخابات کے لیے تیار ہے، سیاسی معاملات کو آگے بڑھانےکے لیے ساتھ دیں گے، پی ڈی ایم نےکہا تھا کہ پنجاب اسمبلی توڑیں ہم قومی اسمبلی توڑ دیں گے، پی ڈی ایم کے کہنے پر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کیں، پی ڈی ایم نے انتخابات کرانےکا وعدہ کیا تھا۔
سراج الحق نےعیدالاضحی کےبعدمناسب تاریخ پرانتخابات کرانےکی تجویزدےدی, ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں کسی نے پی ٹی آئی سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ نہیں کیا تھا، دونوں صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے پر عوام حیران ہے.
اس دوران فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانےکا آخری دن ہے، سپریم کورٹ نے 20 اپریل تک الیکشن کمیشن کو انتحابی نشان دینےکا حکم دیا، الیکشن کمیشن کو انتخابات کا عمل اپریل میں مکمل ہونےکا حکم دیا گیا ہے، الیکشن کمیشن کو تاریخ آگے بڑھانےکی اجازت دی جائے، عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن تاریخ نہیں بڑھا سکتا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 13 دن کی تاخیر ہوئی تب عدالت نے حکم دیا، الیکشن کمیشن شیڈول میں تبدیلی کے لیے بااختیار ہے، پولنگ کا دن تبدیل کیے بغیر الیکشن کمیشن شیڈول تبدیل کرسکتا ہے، الیکشن کمیشن رجوع کرے عدالت موقف سن لےگی، پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 14 مئی ہے، 1970 اور 71 کے نتائج سب کے سامنے ہیں، عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے، ان کیمرا بریفنگ دی گئی لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی، کوئی رکن اسمبلی عدالتی فیصلےکے خلاف نہیں جانا چاہتا، کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا۔
چیف جسٹس نےکہا کہ مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہوسکتی، دوطرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں،گزارش ہوگی کہ پارٹی سربراہان عید بعد نہیں، آج بیٹھیں، جولائی میں بڑی عید ہوگی اس کے بعد الیکشن ہوسکتے ہیں، عید الضحٰی کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے، آج ہی مذاکرات کیے جائیں، مذاکرات میں ہونے والی پیشرفت سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ہم ایک چیز واضح کردیں آپ لوگ پولنگ کی تاریخ آگے نہیں بڑھاسکتے، سپریم کورٹ پولنگ کی تاریخ آگے بڑھانےکا اختیار رکھتی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لےگی، عدالتی فیصلےکو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے، عدالتی فیصلہ ہٹانےکا طریقہ کار ہے، وہ 30 دن بھی گزر گئے، ہم نے اپنا 14 مئی کا فیصلہ قائم رکھنا ہے، 14 مئی کا فیصلہ قائم ہے اور نہیں بدلےگا، سپریم کورٹ کے فیصلےکے خلاف درخواست نہیں آئی ہے، وزارت دفاع کی درخواست مذاق لگی، ہم آج بھی سب کو سننےکے لیے تیار ہیں کل بھی عید نہ ہوئی تو سن لیں گے۔عدالت نے سیاسی جماعتوں کو 4 بجے تک مذاکرات کا وقت دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔