پشاور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کے انتخابی نشان سے متعلق کیس کا فیصلہ سنا دیا، تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا بحال کر دیا گیا۔ اس کیس کی سماعت پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس سید ارشدعلی نےکی۔
جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے کس سیکشن کے تحت تحریک انصاف کے خلاف کارروائی کی، جس پر شکائت کنندہ کے وکیل نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ سیکشن 215 کے تحت کارروائی کی ہے۔
جسٹس ارشد علی نے کہا الیکشن ایکٹ کی سیکشن 208 کےتحت انٹراپارٹی انتخابات ہوتے ہیں، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 209 کی سب سیکشن 2015 کےتحت کیسے پارٹی نشان واپس لیا گیا، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیکشن 209 کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات فارم 65 کو صرف دیکھنا نہیں مطمئن ہونا الیکشن کمیشن کا کام ہے، پی ٹی آئی والے الیکشن کمیشن کو ایک ریکارڈ کیپر سمجھتے ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا سیکشن 209 میں ہے کہ پارٹی چیئرمین کا فارم 65 اقرار نامہ ہےکہ پارٹی انتخابات پارٹی کے آئین کے تحت ہوئے، انتخابی نشان صرف انتخابات کے وقت پارٹی کے پاس ہوتا ہے، انتخابات کے بعد چار سال یہ نشان الیکشن کمیشن کے پاس ہوتا ہے، انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد پارٹی انتخابی نشان مانگتی ہے، الیکشن شیڈول جاری ہوتا ہے تو پھر انتخابی نشان الاٹ ہوتے ہیں، کل اورپرسوں انتخابی نشانات الاٹ کیے جائیں گے، الیکشن ہونے کے بعد سیاسی جماعت کا نشان سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔
پشاور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے درخواست گزاروں، الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی وکلاء کے دلائل سننے کے بعد محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا بحال کر دیا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کو انتخابی نشان کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے اور انتخابی نشان کی حقدار ہے۔