سوات مدین میں جمعرات کو مبینہ قران شریف کی بے حرمتی پر مقامی لوگ مشتعل ہوگئے اور انہوں نے شہری کو برہنہ کرکے سڑک پر گھسیٹا۔ پولیس نے ملزم کو عوامی چنگل سے آزاد کرکے تھانے منتقل کردیا تو لوگوں نے لاوڈسپیکر کے ذریعے اعلانات کرکے تھانے کا گھیراؤکرلیا۔مشتعل ہجوم نے تھانے کو آگ لگا دی اور ساتھ ہی توڑ پھوڑ بھی کی۔
ڈی پی او سوات کے مطابق مشتعل ہجوم نے مبینہ ملزم کو پولیس کی حراست سے نکال کر سڑک پر گھسیٹ کر تشدد کا نشانہ بنایا اور آگ لگاکر قتل کردیا۔ اس دوران پولیس نے ہوائی فائرنگ کی، واقعے میں 11 مظاہرین بھی زخمی ہوئے۔ ہجوم نے تھانے کے باہرپولیس موبائل گاڑی کو بھی آگ لگادی۔بتایا جارہا ہے کہ شہری کے پاس قران مجید کے کچھ اوراق تھے جو جلے ہوئے تھے ۔ پولیس کے مطابق ملزم کا تعلق سیالکوٹ سے تھا ۔ملزم کا نام سلیمان معلوم ہوا ہے اور جبکہ یہ سیر کیلئے سوات مدین آیا ہواتھا۔اس واقعے کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے۔ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مشتعل ہجوم نے سڑک کے درمیان ایک شخص کو آگ لگا دی ہے اور ساتھ ہی ایک پولیس اسٹیشن کے باہر بڑی تعداد میں لوگ جمع ہیں۔
واقعے کے بعد کالام سمیت دیگر علاقوں کے ہوٹلز بند کر دیئے گئے ہیں، سیاحوں نے رات گاڑیوں میں بیٹھ کر گزاری۔دوسری جانب ایکس پر پی ٹی آئی کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے واقعے کا نوٹس لے لیا اور صوبائی پولیس چیف سے رپورٹ طلب کر لی۔ آئی جی پولیس اخترحیات خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی پی او سوات سے رپورٹ طلب کرلی ہے ۔
سوشل میڈیا پر اس واقعے کی مذمت بھی کی جارہی ہے ۔عرفان پٹھان نامی ایک صارف نے مذمت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ “ایک شخص جو کہ سیالکوٹ کا رہائشی ہے ایک ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرکے قران شریف کی بے حرمتی کے منصوبے پر عملدرآمد کرتا ہے،کیا اس میں آپ کو کچھ بھی عجیب نہیں لگتا؟کیا یہ کام وہ اپنے شہر میں نہیں کرسکتا تھا؟یہ اجازت ہمیں کس نے دی ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لیکر خود عدالت لگائے اور فیصلہ کرے؟
ایک اور صارف نے سوال اٹھایا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک شہری قران شریف کی بے حرمتی کیلئے سوات مدین کا انتخاب کرے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس واقعے سے سوات میں سیاحت کو بڑا نقصان پہنچے گا۔ملاکنڈ ڈویژن میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے تاہم خیبر پختونخوا میں توہین مذہب کے معاملے پر پہلے بھی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں.
اپریل 2017 میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال خان پر توہینِ مذہب کا الزام لگا کر ہجوم نے اسے قتل کردیا تھا۔29 مارچ 2022 کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے انجم آباد میں توہین مذہب کے مبینہ الزام پر ایک خاتون ٹیچر کو گلے پر چھریاں پھیر کر ذبح کر دیا تھا۔اسی طرح 7مئی 2023 کو مردان کے علاقہ ساول ڈھیر میں ایک سیاسی جلسے میں شریک مولانا نگار علی کو توہین مذہب کے معاملے پر مشتعل لوگوں نے قتل کیا تھا۔