موسمیاتی تبدیلیاں ہمیں کس طرح سے متاثر کر رہی ہیں۔ دنیا کی بڑی فوجی طاقتوں کو ایک نئے مسئلے کا سامنا ہے۔ کلائمٹ چینج کی وجہ سے ملٹری آپریشن پلاننگ کو نئے چیلنج درپیش ہیں۔ ملٹری کمانڈر جب فوجی مشن ڈیزائن کرتے ہیں تو کلائمٹ چینج کی وجہ سے ان فوجی امور میں اس پہلو پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے۔
نیوگیشن سسٹم، سیٹلائیٹ رابطے، کمیونیکیشن، فائر پاور، جہازوں میزائلوں کی پرواز، راڈار۔ یہ سب اب کلائمٹ چینج کی وجہ سے موسم میں شدت آنے سے متاثر ہوتے ہیں۔ ایکوریسی میں فرق پڑا ہے۔ فوجی آلات کی صلاحیت میں کمی آئی ہے۔ ویدر افیکٹ اب فوجی منصوبوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کو نظر میں رکھنا لازمی ہو چکا ہے۔موسم بدل رہے ہیں۔ بزنس بدل رہے ہیں۔ کچھ شعبے ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ جیسے بڑے ڈیم، بڑے انڈسٹریل یونٹ، مائننگ، آئل گیس کے پراجیکٹ، بڑے بجلی گھر۔ کہیں پانی کمیاب ہے اور کہیں سیلاب آ رہے ہیں۔ یہ باتیں ووٹر بھی سوچتا ہے۔ امریکا کے صدارتی الیکشن میں بائڈن کلائمٹ کنٹرول کی پالیسیوں کا حامی ہے اور ٹرمپ مخالف ہے۔
کلائمٹ چینج نے کچھ ملکوں کو متاثرہ ملکوں کی صف میں پہنچا دیا ہے۔ پاکستان کلائمٹ چینج سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل ہے۔ مڈگاسکر وہ پہلا ملک ہے جسے کلائمٹ فنڈ سے امداد ملی ہے۔ پاکستان بھی اس فنڈ سے مدد کے لیے اپنا کیس لڑ رہا ہے۔چین نے پچھلے چالیس سال میں اگریکلچر میں مثالی ترقی کی ہے۔ آبادی بڑھنے کی رفتار سے چار گنا زیادہ سپیڈ کے ساتھ اپنی اناج اگانے کی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے۔ دو ہزار بائیس میں چین نے ریکارڈ 2022 میں چین میں چھ سو چھیاسی ملین ٹن (686) غلہ اگایا۔ اب چین کی اس شاندار ترقی کو کلائمٹ چینج کے اثرات کا سامنا ہے۔
چین کو کلامیٹ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے ملکوں میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ انڈسٹریل ترقی، کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر ہیں ۔ چین اب تیزی سے گرین انرجی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سولر اور ونڈ انرجی کے متبادل ذرائع سے اپنی انرجی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔چین کی دیہی آبادی میں بوڑھوں کی شرح بڑھ رہی ہے۔ پانی کی کمی ایک مسئلہ ہے۔ چین کے ایگری فارم کا سائز چھوٹا ہے۔ چینی آبادی کی آمدن میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ چینی آبادی کو کوالٹی فوڈ اور زیادہ پروٹین والی غذا درکار ہے۔ وہ یہ افورڈ بھی کر سکتے ہیں۔ اس ضرورت کو پورا کرنا بھی ایک سر درد ہے۔
امریکا اور یورپ چین پر طرح طرح کے ٹیرف اور پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ ماحول دوست پالیسیاں نہ اپنانے والے ملکوں پر نئے کنٹرول نافذ کیے جا رہے ہیں۔ انڈسٹریل پروڈکشن کتنا کاربن جلا کر حاصل کی گئی ہے، اس پر بھی کنٹرول نافذ کیا جا رہا ہے۔ اس کا اثر پاکستان پر بھی ہوگا۔ایک طرف پاکستان کی انڈسٹری مہنگی انرجی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔ عالمی منڈیوں میں پاکستانی پراڈکٹ مہنگی پڑ رہی ہیں، مسابقت نہ کر پانے کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں۔ اس پر کلائمٹ کنٹرول کے لیے عائد کی جانے والی نئے کنٹرول ہماری ایکسپورٹ کے لیے نئی مشکلات لائیں گے۔
روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد انرجی مارکیٹ اوپر نیچے ہو گئی ہے۔ تیل اور گیس کی روایتی صنعت ہو یا توانائی کے متبادل ذرائع، سولر، الیکٹرک وہیکل، ایک تجارتی لڑائی اور زور آزمائی شروع ہو چکی ہے۔ روس کا ساتھ دینے پر ، اس سے بھی پہلے چین کے ساتھ ٹریڈ وار کی وجہ سے بھی، امریکا، یورپ اور چین کے درمیان ٹیرف وار میں شدت آ گئی ہے۔
اب یہ سوال بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ کلائمٹ چینج پر زیادہ بات کرنے سے دنیا میں تنازعات زیادہ تو نہیں بڑھ جائیں گے؟
پاکستان کو اب اپنی پالیسی تیزی سے گلوبل چینج کے مطابق ہم آہنگ کرنی ہے۔ گلوبل انوائرمنٹ سٹینڈرڈ کو فالو کرنا پڑے گا۔ امریکا، یورپ جو نئی پالیسی نافذ کر رہے ہیں اس سے تجارتی تنازعات بھی بڑھیں گے۔ بزنس کو قانونی مسائل اور ثالثی عدالتوں سے بھی نپٹنا ہوگا۔پاکستان کے لیے امکان یہ ہے کہ وہ کلائمٹ سے متاثرہ ملک کے طور پر استثنیٰ حاصل کرے۔ اپنی سفارتی کور کو ایکٹیو کرے اپنے لیے فیور اور سہولیات حاصل کرے، جو مل سکتی ہیں۔ اس کے لیے عالمی مالیاتی اداروں نے فنڈ بھی مختص کیے ہیں اور متاثرہ ملکوں کو استثنیٰ بھی دیے جائیں گے۔
پانچ سال بعد پاکستانی ماہرین نے عالمی ماہرین کے ساتھ جموں کشمیر کے کشتواڑ ضلع کا دورہ کیا ہے۔ ماہرین کی ٹیم نے جموں کے کشتواڑ ضلع میں ہائڈرو پراجیکٹس کا معائنہ کیا ہے۔ بظاہر یہ پاک انڈیا تعلقات کو نارمل کرنے کی ایک پیشرفت دکھائی دیتی ہے۔ اس کا ایک رخ کلائمٹ چینج کا فیکٹر بھی ہے۔ انڈیا کلائمٹ پر بڑھتی ہوئی آگاہی کی وجہ سے، پاکستانی کلائمٹ کو نقصان پہنچانے کے الزام سے بچنا چاہتا ہے۔ کلائمٹ کو نقصان پہنچانے والے ملکوں کی لسٹ میں کوئی بھی نہیں آنا چاہتا۔ ایسے ملکوں اور اداروں کے خلاف ماحول بنتا جا رہا ہے۔اس لیے اس کی زد میں کوئی نہیں آنا چاہتا۔