پشاور (سید زاہد عثمان) خیبرپختونخوا صوبہ یا تجربہ گاہ،ھر دورے حکومت میں خیبر پختونخوا کو بطور تجربگاہ استعمال کیا گیا،جسکا نتیجہ یہ ہے آج صوبہ بدترین بدانتظامی اور بڈگورننس کا شکار ہے،گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ حکومت کرنے کے باوجود تحریک انصاف صوبے کی گورننس کا مسئلہ حل کرنے میں بدترین طور پرناکام ہے،دن بدن بدانتظامی کی فضا میں شدت آرہی ہے،حکومت وزراء کی جانب سے آوازیں اس بات کا منہ بولتا ثبوت اور واضح دلیل ہیں،اسکا سارا ملبہ ہم تحریک انصاف پر نہیں ڈال سکتے کیونکہ وفاقی کی جانب سے مسلسل نظر انداز کرنے کی وجہ سے آج خیبرپختونخوا دہشتگردی،امن و امان،انتظامی مسائل سمیت مختلف قسم کے ناختم ہونے والے دلدل میں پھنس چکا ہے.
دوسری جانب ملڑی اسٹبلشمنٹ بھی اپنے طور پر کم کررہا ہے سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے درمیان بد اعتمادی کی فضا نے اس غریب صوبے کو تباہی کی کگار پر لاکے کھڑا کردیا ہے،چیف انجنئیر سی این ڈبلیو کے مطابق خیبر پختونخوا میں مجموعی طور پر چھوٹی اور بڑی سڑکوں کا تئیس سو اٹھاسی کلو میٹر جال موجود ہے مگر اسمیں بھی تقریباً بارہ سو کلو میٹر کو مرمت کرنے کی ضرورت ہے جسکے لئے اربوں روپے کا بجٹ درکار ہے،اگر دس سال سے زائد حکومت کرنے کے بعد بھی حکومت کی کارکردگی کی یہ حالت ہے اس سے آپ خوب اندازہ لگا سکتے ہیں خیبر پختونخوا کے باقی محکموں کی کیا حالت ہوگی،تعلیم کے شعبے کی یہ حالت ہے آج بھی چار ہزار سے زائد سکول بجلی کنکش،چاردیواری،باتھ روم اور چھٹ جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں،سرکاری ریکارڈ کے مطابق اڑتالیس لاکھ بچے سکول سےباہر ہیں جسکو داخل کروانے کے لئے حکومت اور ریاست کے پاس کوئی حل نظر نہیں آرہا،شعبہ صحت میں پشاور کے بڑے اسپتالوں کے علاوہ باقی اضلاع کی یہ حالت ہے کہ کسی بھی مریض کا مکمل علاج وہاں سے ممکن ہی نہیں،ایپنڈکس جیسی آپریشن کے لئے بھی مریض کو ریفر ٹو پشاور کیا جاتا ہے،سنجیدگی کا یہ عالم ہے صوبے بھر سے جتنے ڈاکٹر ” ایکٹرا آرڈنری لیو” یعنی باہر ملک پڑھنے یا کسی اور کام سے گئے ڈاکٹروں کا کوئی ڈیٹا تک ڈی جی صحت کے پاس موجود نہیں اسی طرح ڈاکٹروں کی تین ہزار سے زائد پوسٹس خالی ہیں مگر کوئی بھرتی نہیں ہورہی نا اس بارے میں سوچا جارہا ہے،صوبائی وزیر برائے محنت کش فضل شکور اسمبلی فلور پر یہ اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ صوبہ بھر میں کام کرنے والے بھٹہ خشت مزدوروں کا کوئی ڈیٹا نہ متلعقہ محکمو اور نہ حکومت کے پاس موجود ہے،اسی طرح دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کام کرنے والی پولیس فورس کی یہ حالت یے پشاور جیسے شہر میں بھی تھانے کرائے کے مکانات میں چل رہے ہیں قبائیلی اضلاع میں پولیس فورس کے پاس اپنی بندوقیں تک نہیں ہزاروں کی تعداد میں موجود اسلحہ پولیس اہلکار یعنی سابقہ خصہ داروں کا ذاتی ہے.
اب آتے ہیں باقی محکموں کی طرف ایسی بدانتظامی یعنی بڈگورننس کی صورتحال آپ ضلعی انتظامیہ،تھانے اور کچہری کی سطح پر بھی دیکھ سکتے ہیں.
اس حوالے سے سابقہ آئی جی پولیس اور ہوم سیکرٹری اختر علی شاہ کہتے ہیں گڈ گورننس موثریت، شفافیت، تاثیر، احتساب، قانون کی حکمرانی کو کہتے ہیں مگر یہاں ان سب میں ایک چیز بھی موجود نہیں قانون کی عملداری میں ہمیں اس حد تک ناکامی کا سامنا ہے کہ دہشتگرد جسکو چاہیں جب چاہیں مرضی کے مطابق مار دیتے ہیں،سٹریٹ کرائمز اور منشیات فروشی عروج پر ہے اسی طرح پشاور جو پایہ تخت ہے اسکے نواحی علاقے کافور ڈیری میں گزشتہ ایک سال سے زمین کے تنازعے پر کئی لوگ مر گئے،دو دو دن تک لڑائی جاری رہتی ہے بھاری ہتھیار موجود ہیں مگر حکومت خاموشی سے تماشہ دیکھ رہی ہے،کرم میں تین درجن لوگ مرے حکومت نے تماشہ دیکھا اور بہت ساری مثالیں ہیں،سید اختر علی شاہ کے مطابق صوبہ بھر کی یونیورسٹیاں مالی مسائل کا شکار ہیں صوبہ سینکڑوں ارب کا قرضدار ہوچکا ہے، پشاور یعنی دارلخلافہ میں دو ملی میٹر بارش کے بعد میں یونیورسٹی روڈ تالاب میں بدل جاتی ہے،شہر کے اندر پارک میں بلڈنگ بن گئی کوئی پوچھنے والا نہیں،ہر طرف افراتفری کا سماں ہے،حکومت کی جانب سے کرپشن کنٹرول کرنے اور نظر رکھنے کے لئے کمیٹی بنانا اس بات کی دلیل ہے کہ صوبہ کرپشن جیسی ناسور سے بھرا پڑا ہے.
حکومتی سطح پر عمران خان جسنے اینٹی کرپشن کے نعرے کو اپنا منشور بنایا اسکو کنٹرول کرنے کے لئے کمیٹیاں بنا رہے ہیں.گورننس کے مسائل پر بات کرتے ہوئے سنئیر صحافی لحاظ علی کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کو بڈگورننس کی وجہ سے بے انتہا چیلنجز کا سامنا ہے اور اُس میں بدن بدن اضافہ ہو رہا ہے،صوبے میں دہشتگردی ہے مگر دہشتگردی کے نام پر آپ اپنی بڈ گورننس اور بد انتظامی کو چھپا نہیں سکتے، قبائیلی اضلاع کے انضمام کے بعد وفاق نے بھی صوبے کو مزید بدانتظامی کی دلدل میں پھنسا دیا،لحاظ علی کے مطابق بد انتظامی کا یہ سلسلہ بہت پرانا ہے یہ نوے کی دہائی میں بھی تھا نئی صدی کے آغاز میں بھی اور آج بھی ہے اسکے کئی محرکات ہے ماضی میں صوبے کو تجربگاہ کے طور پر استعمال کیا گیا،جہاد کے نام پر صوبے کو نا ختم ہونے والی جنگ میں دھکیلا گیا اسکی ذمہ داری ُ صرف تحریک انصاف یا کسی ایک سیاسی جماعت پر نہیں ڈال سکتے اسکے ذمہ دار سیاسی جماعتیں ،سول انتظامیہ،ملٹری اسٹبلشمنٹ وفاق حتیٰ کے عوام بھی ہیں،انکا کہنا ہے کہ بدانتظامی اور خراب طرز حکمرانی کی اس فضا سے نکلنے کے لئے سبکو مل کر کام کرنا ہوگا،میرٹ کی بلادستی،قانون کی عملداری،انصاف کا بول بالا اور فضول خرچیوں پر پیسے لگانے کی بجائے اس مٹی کی حقیقی معنوں میں خدمت کرنا ہوگی اسکے لئے سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کو ساتھ ملکر کام کرنا ہوگا پنجاب میں ملٹری اسٹبلشمنٹ پھر بھی اسی طرح نہیں ہے لیکن ہمارے صوبے میں ٹھیک ٹاک تمام چیزوں میں شامل ہے
فاٹا یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر واجد خٹک کہتے ہیں کہ بڈگورننس کا مسئلہ سیاسی بھی ہے اور ریاستی بھی مگر موجودہ حکومت کو مستقبل میں جب تاریخ لکھی جائیگی تو اسکو بڈگورننس کے لئے ایک استعارے کے طور پر لیا جائیگا،عوامی منڈیٹ ہونے کے باوجود گورننس انکی ترجیحات میں شائد شامل ہی نہیں یہ کسی اور کاموں کیں لگے ہیں صوبے پر توجہ دینے کی بجائے اپنے لیڈر کو خوش کرنے میں لگے ہیں،انکا کہنا تھا کہ ظاہر سی بات ہے عوام جو چیز زیادہ مشہور ہو نعرہ زیادہ لگنے والا ہو اُس سے متاثر ہوتے ہیں اور وہ زمینی حقائق سے بےخبر ہوتے ہیں جسکی وجہ سے بدانتظامی اور خراب طرز حکمرانی کو بڑھاوا ملتا ہے،اسسٹنٹ پروفیسر واجد خٹک کے مطابق پولیٹیکل سائنس کے پاس اسکا حل بلکل بھی موجود نہیں سول انتظامیہ اور براسر اقتدار حکمرانوں کو مل کر کام کرنا ہوگا ورنہ مستقبل قریب میں بدانتظامی اور بڈگورننس کی یہ فضا ایک ایس طوفان ساتھ لائیگی جسمیں سب کچھ تہہ تیغ ہوجائیگا