اسلام آباد (مدثر حسین) روس امریکہ اور امریکہ چین محاز آرائی اور مفادات کے ٹکراو سے پیدا شدہ کشیدہ صورتحال میں اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس پوری دنیا میں انتہائی اہمیت کے ساتھ مانیٹر کیا جا رہا ہے۔ دو روزہ اجلاس میں تنظیم کے رکن ممالک سے ائے ہوئے درجنوں وفود شرکت کر رہے ہیں، یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب مشرقی وسطیٰ میں جاری جنگ اور یوکرائن میں لڑائی کی وجہ سے پوری دنیا کا امن داو پر لگا ہوا ہے۔ معمولی سے معمولی غلط فہمی پورے علاقے کو محاز جنگ بنا سکتی ہیں،آجکل کے دور میں جنگ کسی مخصوص علاقے تک محدود نہیں رہتی بلکہ اسکے اثرات براعظموں تک میں محسوس کیے جاتے ہیں، یوکرائن جنگ کی وجہ سے جہاں روس مغرب میں زیر عتاب ہے، وہاں ایس سی او کا رکن ملک ایران غزہ اور لبنان میں جاری اسرائیلی جنگی جرائم کی وجہ سے خطے میں تنہائی کا شکار ہے۔ اسی طرح پاک بھارت سرد مہری اور کشیدہ سفارتی تعلقات کے اس دور میں بھارتی وفد کا اسلام آباد آنا کوئی معمولی بات نہیں، چین بھی مغرب کے ساتھ محاز آرائی کی کیفیت سے گزر رہا ہیں۔ افغانستان میں طالبان رجیم کے بعد کی صورتحال بھی خاصی تشویشناک ہے، اس تمام تر عالمی منظر نامے میں شنگائی تعاون تنظیم کے لیڈران کی اسلام آباد میں بیٹھک، علاقائی تعاون کی بازگشت اور سیکورٹی چیلجنز پر کھل کر گفتگو خطے میں مثبت تبدیلیوں کی موجب بن سکتی ہے۔
شنگائی تعاون تنظیم آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی آرگنائزیشن ہے، کیونکہ چین، بھارت اور پاکستان کی کل آبادی عالمی آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ ہیں، اسی طرح عالمی جی ڈی پی کا 40 فیصد ایس سی او ممالک پر مشتمل ہیں، جو تقریبا 23 ٹریلین ڈالر بنتے ہیں، چین، روس اور قزاقستان نادر معدنیات کے سب سے بڑے پیداواری ممالک ہیں، زرعی پیداور خصوصا گندم، چاول، کپاس میں بھی پاکستان، بھارت، روس اور چین دنیا کے بڑے پیداواری ممالک ہیں، یہ چاروں ممالک ایٹمی طاقت سےبھی لیس ہیں جو علاقائی اور عالمی سلامتی میں اہم کردار رکھتے ہیں، تاہم ان تمام تر قابل رشک شماریات کے باوجود ایس سی او ابھی تک ناٹو یا یورپی یونین جیسی تنظیم نہیں بن پائی، حالانکہ اس تنظیم میں دنیا کو متبادل نیو ورلڈ ارڈر دینے کی پوری صلاحیت ہے۔
مغربی دنیا میں اس تنظیم کو ٹیبل ٹاک کی حد تک اتحاد سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ بدلتے عالمی منظر نامے میں ایس سی او ممالک نے تاحال بطور ایک مضبوط اتحاد کے کوئی کردار ادا نہیں کیا، نہ ہی رکن ممالک نے اہم علاقائی ایشوز پر یکتا ہو کر کوئی مضبوط موقف اپنایا ہے، چاہے وہ یوکرائن جنگ ہو، یا افغانستان میں جمہوریت کا سقوط ، آرمینیا آزربائیجان جنگ ہو، یا ایران اور اسرائیل کے بیچ جاری کشیدگی، ایس سی او نے ان تمام علاقائی چیلنجز پر یورپی یونین یا ناٹو جیسا کوئی موقف نہیں دیا، پاک بھارت کشیدگی اور خطے میں مفادات کا ٹکراو ایس سی او ممالک کو ایک مضبوط اتحاد میں پرونے میں روکاٹ بن رہی ہیں، بھارت ایک طرف ایس سی او کا رکن ہے تو دوسری طرف امریکہ کی سربراہی میں انڈو پیسفک اتحاد کواڈ میں بھی شامل ہے، ایران کریمیا کو روس کا حصہ نہیں مانتا، دوسری طرف روس خلیج فارس کے چھوٹے جزائر پر ایرانی ملکیت کے دعوے کی حمایت نہیں کرتا، پاکستان اور بھارت کی دشمنی، چین بھارت سرحدی تنازعات ، اسلام اباد کی خراب اقتصادی صورتحال اور افغانستان میں دہشتگردی کے اڈے خطے میں استحکام کے خواب کو حقیقت میں بدلنے سے روک رہے ہیں۔
چلیجنز یقینناً کافی گہرے اور حساس نوعیت کے ہیں، تاہم خطے میں معاشی ترقی اور استحکام کے زریعے اربوں لوگوں کی زندگیوں میں بہتری وہ موٹیویشن ہے جو ایس سی او ممالک کو اختلافات بھلا کر اگے بڑھنے اور مغربی عزائم کو ناکام بنا کر ایک دوسرے سے متعلق بدگمانیاں ختم کرنے پر امادہ کرسکتی ہیں۔