پشاور(تحریر: عروج خان )میں یہاں لاہور کے نجی کالج میں پیش آئے ایک حالیہ جھوٹے پروپیگنڈے کا ذکر کروں گی جس کے خلاف ہر جگہ مظاہرے دیکھے گئے اور لوگ حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ لاہور میں انسٹاگرام پر شروع ہونے والے ایک مبینہ ریپ کے غیرمصدقہ واقعے نے کس طرح پُرتشدد مظاہروں کی شکل اختیار کی۔ اگر دیکھا جائے تو خواتین کے حقوق کی واضح پامالی ہو رہی ہے، جو ایک سنگین مسئلہ ہے۔
ہمارے حقوق نظرانداز ہو رہے ہیں اور روزانہ ہمیں نئے ریپ کے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ حال ہی میں پنجاب گروپ آف کالجز لاہور میں پیش آنے والا جھوٹا واقعہ ہمیں ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ ہم بغیر تصدیق کے ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ ان پوسٹس کو شیئر کر دیتے ہیں جو بےگناہ خاندانوں کی عزت برباد کرتی ہیں اور دیگر لڑکیوں کو تعلیم سے دور کر دیتی ہیں۔ ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ ایک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے ہزار جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ اس جھوٹے پروپیگنڈے کو سچ ثابت کرنے کے لیے ایک عورت نے اس لڑکی کی جھوٹی ماں بن کر سامنے آ کر جھوٹی گواہی دی، لیکن بعد میں اسے گرفتار کر کے یہ سچائی سامنے لائی گئی کہ وہ یہ سب ویورز اور فالورز کے لیے کر رہی تھی۔
دوسری جانب، کالج انتظامیہ کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طرف انہیں ہزاروں طالبات کو قائل کرنا تھا کہ یہ واقعہ حقیقی نہیں، جبکہ دوسری جانب سوشل میڈیا کے چند ہزار یوٹیوبرز اور اکاؤنٹس کی روک تھام کرنی تھی۔ انتظامیہ نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام مسائل کو پیچھے چھوڑ کر تحقیق کی جانب توجہ دی۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ سب محض ایک ڈرامہ تھا، جس نے ملک اور تعلیمی اداروں میں انتشار پیدا کیا۔
ہمیں چاہیے کہ ایسے ڈراموں اور جھوٹی کہانیوں کو بند کرکے کچھ مثبت اقدامات کریں، نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی۔ ہمیں اپنی اصل خوبصورتی کو سامنے لانا ہوگا، جب کہ دوسرے ممالک نے اپنے بدصورت داغوں کو چھپایا ہوا ہے۔ میرے لکھنے کا مقصد صرف پروپیگنڈے اور جھوٹ کا خاتمہ ہے۔ اگر یہ مسئلہ ہر صوبے میں ہو، تو ہم اس میں کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔