اقوام متحدہ کی تعلیمی، ثقافتی اور فنی تنظیم یونیسکو نے رباب کو "غیر محسوس بشری ثقافتی ورثہ” کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یونیسکو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ رباب ایک اہم ثقافتی ورثہ ہے جو افغانستان، ایران، تاجکستان اور ازبکستان سمیت وسطی اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے لوگوں کی زندگی کا حصہ ہے۔ یہ آلہ مختلف ثقافتی اور مذہبی تقاریب میں استعمال ہوتا ہے۔
یونیسکو کا مزید کہنا تھا کہ "رباب افغانستان، ایران، تاجکستان اور ازبکستان کے عوام کے درمیان اتحاد کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہ ثقافتی اور سماجی یکجہتی میں مدد فراہم کرتا ہے اور خاص طور پر پناہ گزینوں کے درمیان ثقافتی تبادلے اور روابط کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔"
یہ فیصلہ یونیسکو کے تحت 19 ویں بین الحکومتی کمیٹی کی پاراگوئے میں دسمبر کی 2 تاریخ سے 7 تک جاری رہنے والی اجلاس میں کیا گیا، جس میں غیر ملموس بشری ثقافتی ورثہ کے تحفظ کے حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے۔
یونیسکو کے اس اعلان کے وقت افغانستان میں طالبان حکومت نے رباب سمیت موسیقی کے تمام آلات پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے۔ رباب افغانستان اورخیبر پختونخوا کی موسیقی کا ایک نہایت اہم آلہ ہے، جو عام طور پر دیگر سازوں کے ساتھ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے بغیر افغانستان اور اردگرد کے علاقے کی موسیقی کو ادھورا سمجھا جاتا ہے۔
رباب نہ صرف گانوں کے ساتھ بجایا جاتا ہے بلکہ طبلہ کے ساتھ بھی یہ آلہ اپنی دلکش آوازیں نکالتا ہے، جس سے موسیقی کے شائقین لطف اندوز ہوتے ہیں۔
روایتی طور پر رباب شاتوت کے درخت کی لکڑی، جانوروں کی کھال اور ان کے آنتوں کے تاروں سے بنایا جاتا تھا، لیکن اب اس میں نائلون یا دھاتی تار بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ "رباب” کا لفظ عربی لفظ "روح – باب” سے نکلا ہے، جس کا مطلب "روح کا دروازہ” ہے۔
موسیقی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ رباب دیگر موسیقی کے آلات کے برعکس ایک ایسا آلہ ہے جس کا مصنوعی طور پر آواز پیدا کرنا ممکن نہیں اور نہ ہی اس کا الیکٹرانک ورژن بنایا جا سکتا ہے۔ بلکہ یہ صرف ماہر موسیقاروں کے ہاتھوں سے ہی اپنی اصل آواز پیدا کرتا ہے، جو صدیوں سے اس آلے کے ثقافتی اور تاریخی اہمیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
یونیسکو کا یہ اقدام رباب کے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے ایک اہم قدم ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب افغانستان میں موسیقی کے آلات پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔