پاکستان دنیا کے بڑے کوئلہ پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے، اور یہاں کی کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت تشویشناک ہے۔ خاص طور پر شانگلہ کے مزدوروں کی ہلاکتوں اور حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح نے نہ صرف اس علاقے کے عوام کو مایوس کیا ہے بلکہ پورے ملک کی توجہ بھی اس سنگین مسئلے پر مرکوز کر دی ہے۔
پاکستان کے مختلف صوبوں بشمول خیبرپختونخوا، بلوچستان، اور پنجاب میں کوئلہ کانوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ان میں خیبرپختونخوا کے ہنگو، اورکزئی ایجنسی اور بلوچستان کے علاقوں جیسے دُکی، مچھ، بولان اور ہرنائی شامل ہیں، جہاں ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ ان مزدوروں کی بڑی تعداد شانگلہ سے تعلق رکھتی ہے اور یہ ضلع پاکستان کے معدنیات کے شعبے میں لیبر فراہم کرنے والا واحد ضلع ہے۔ لیکن اس صنعت کی ترقی کی قیمت ان مزدوروں کی جانوں کی صورت میں ادا کی جا رہی ہے۔
شانگلہ کے مزدوروں کی مشکلات اور حادثات کی وجوہات
شانگلہ کے مزدوروں کی زندگی خطرات سے بھری ہوئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1990 سے 2023 تک، پاکستان میں کوئلہ کانوں میں حادثات میں 1 لاکھ 55 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے 7 ہزار کا تعلق شانگلہ سے ہے۔ ان میں زیادہ تر نوجوان شامل ہیں جن کی عمریں 15 سے 30 سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ ان حادثات میں اکثر ایک ہی خاندان کے کئی افراد بھی جاں بحق ہو جاتے ہیں، جیسا کہ 2011 میں بلوچستان میں ہونے والے ایک دھماکے میں 42 شانگلہ کے مزدوروں کی موت واقع ہوئی تھی۔
یہ حادثات عموماً زہریلی گیسوں کے اخراج، میتھین گیس کے دھماکوں اور کانوں کے منہدم ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ان حادثات میں فوری طور پر ریسکیو کا کوئی انتظام نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے جاں بحق ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، کانوں میں حفاظتی انتظامات کی کمی، مزدوروں کی عدم تربیت، اور چیک اینڈ بیلنس کا فقدان بھی ان حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح کا سبب بن رہا ہے۔
قانونی حیثیت اور حکومتی ذمہ داریاں
پاکستان میں کوئلہ کان کنی قانونی ہے، مگر اکثر کانیں غیر قانونی طور پر یا بغیر مناسب لائسنس کے چلائی جاتی ہیں۔ مائن اینڈ منرلز ڈیپارٹمنٹ کے مطابق، کانوں میں حفاظتی تدابیر نہ ہونے پر متعلقہ مینیجرز اور ٹھیکے داروں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے، جس میں قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم، ان قوانین پر عمل درآمد کی کمی کی وجہ سے حادثات کی تعداد میں کمی نہیں آ رہی۔
محکمۂ معدنیات کی جانب سے سیفٹی اور مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جا رہے، اور نہ ہی مزدوروں کی حالت زار پر کوئی توجہ دی جا رہی ہے۔ شانگلہ کے مزدوروں کو نہ تو اچھے علاج کی سہولتیں میسر ہیں اور نہ ہی ان کے بچوں کے لیے تعلیمی ادارے موجود ہیں۔
مزدوروں کا معاشی حالات اور متبادل روزگار کی ضرورت
شانگلہ کے بیشتر لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور اپنی زندگی کے لیے کوئلے کی کانوں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان مزدوروں کی اجرت دوسرے علاقوں کے مزدوروں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے، جو تقریباً 60 سے 70 ہزار ماہانہ تک پہنچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس خطرناک کام کو ترجیح دیتی ہے، لیکن جب وہ حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں تو ان کے خاندان غربت میں ڈوب جاتے ہیں اور ان کا کوئی کفیل نہیں رہتا۔
مقامی سیاسی شخصیات ہر سال ان سے ووٹ تو لیتی ہیں، مگر ان کی زندگی کے معیار میں کوئی بہتری نہیں لائی جا رہی۔ شانگلہ میں نہ تو مزدوروں کے لیے صحت کی سہولتیں ہیں اور نہ ہی ان کے بچوں کے لیے اسکولز۔
جدید معدنیات نکالنے کے طریقے اور پاکستان کا بحران
جدید دنیا میں معدنیات نکالنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور مشینری کا استعمال کیا جا رہا ہے جس سے حادثات کی شرح میں کمی آئی ہے۔ خودکار مشینیں، ڈرونز، اور ریموٹ کنٹرول آلات کا استعمال مزدوروں کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے، لیکن پاکستان میں ابھی بھی کان کنی کے قدیم طریقوں کا استعمال ہو رہا ہے جس کے باعث حادثات کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان میں کوئلہ کان کنی کے شعبے میں نہ صرف حفاظتی تدابیر کی کمی ہے بلکہ اس صنعت کے مزدوروں کے حقوق اور حالت زار پر بھی حکومت کی توجہ نہیں دی جا رہی۔ ان حادثات کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ کان کنی کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے، مزدوروں کی تربیت کو یقینی بنایا جائے، اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔ اس کے علاوہ، شانگلہ جیسے علاقوں میں مزدوروں کے لیے متبادل روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ وہ اپنی زندگی کے خطرات سے بچ سکیں اور بہتر مستقبل کی جانب قدم بڑھا سکیں۔