2021 میں جب امریکہ نے تقریباً دو دہائیوں بعد افغانستان سے اچانک انخلا کا اعلان کیا، تو اس وقت دنیا بھر کی نظریں کابل پر مرکوز ہو گئیں۔ امریکی فوج کا انخلا نہ صرف سیاسی و عسکری طور پر ایک بڑا واقعہ تھا، بلکہ اس کے اثرات اب بھی پورے خطے کو ہلا کر رکھے ہوئے ہیں۔
اس انخلا کے نتیجے میں امریکہ نے افغانستان میں بے پناہ عسکری ساز و سامان چھوڑ دیا، جس کی مالیت امریکی محکمہ دفاع کے مطابق تقریباً سات ارب ڈالر تھی۔ اس میں 40,000 سے زائد گاڑیاں، 300,000 سے زیادہ ہتھیار، ڈرونز، نائٹ وژن آلات، ہیلی کاپٹر، اور دیگر جدید ٹیکنالوجی شامل تھی۔
افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد یہ سوال شدت اختیار کر گیا کہ اتنی بڑی مقدار میں اسلحہ کہاں گیا؟ کیا طالبان نے اسے اپنے پاس رکھا؟ یا یہ اسلحہ دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ لگا؟ اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سوال کے جوابات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
پاکستانی حکومت اور سیکیورٹی ادارے بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ یہ امریکی اسلحہ اب تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور دیگر شدت پسند گروہوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا واضح اور حالیہ ثبوت بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والا حملہ ہے، جس میں 26 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس واقعے میں استعمال ہونے والا اسلحہ امریکی ساختہ تھا، جس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
1. افراتفری میں چھوٹا اسلحہ:
جب طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا، تو افغان فوج نے شدید بد نظمی اور خوف کے عالم میں متعدد عسکری اڈے اور اسلحہ خانے چھوڑ دیے۔ کچھ اہلکار تو فرار ہو گئے اور پیچھے اسلحہ چھوڑ گئے، جب کہ کچھ نے ممکنہ طور پر یہ اسلحہ جان بوجھ کر طالبان یا دیگر گروہوں کو سونپ دیا۔
2. طالبان اور دہشت گرد گروہوں کا گٹھ جوڑ:
طالبان اور ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کے درمیان نظریاتی اور تنظیمی روابط ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق طالبان قیادت نے امریکی ہتھیار اپنے "برادر تنظیموں” کو تحفے میں دیے تاکہ وہ اپنی کارروائیاں پاکستان میں جاری رکھ سکیں۔ یہ ایک طرح کی "اسٹریٹیجک سرمایہ کاری” ہے جس کا مقصد اپنے اثر و رسوخ کو علاقائی سطح پر بڑھانا ہو سکتا ہے۔
3. بلیک مارکیٹ میں فروخت:
کچھ رپورٹس کے مطابق طالبان کے چند دھڑوں نے امریکی اسلحہ بلیک مارکیٹ میں فروخت کر دیا تاکہ پیسہ کمایا جا سکے۔ افغان سرزمین پر اسلحے کی غیر قانونی تجارت ایک منظم نیٹ ورک کی شکل اختیار کر چکی ہے، جس کا فائدہ دنیا بھر کے شدت پسند گروہوں کو ہو رہا ہے۔
اب جب دہشت گردوں کے پاس جدید امریکی اسلحہ موجود ہے، ان کے حملوں میں نہ صرف شدت آئی ہے بلکہ مہارت بھی بڑھی ہے۔ رات کے وقت نائٹ وژن آلات کا استعمال، بہتر نشانہ بازی، اور دور سے حملے کی صلاحیت نے پاکستان میں سیکیورٹی اداروں کے لیے خطرات بڑھا دیے ہیں۔ اسلحہ صرف جنگی نہیں، تکنیکی بھی ہے — جس سے ان کی آپریشنل صلاحیتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔
یہ صورتحال صرف پاکستان یا افغانستان کا مسئلہ نہیں رہا۔ امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کے اقدامات کے نتائج کس طرح خطے میں عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔ امریکی اسلحے کا دہشت گردوں کے ہاتھ لگنا ایک بین الاقوامی سیکیورٹی مسئلہ ہے جس کے نتائج نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا بھر کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔
افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا نے نہ صرف طالبان کو طاقتور بنایا بلکہ دہشت گرد گروہوں کو جدید ترین ہتھیار فراہم کر دیے۔ اب یہ گروہ، خاص طور پر پاکستان میں، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے علاقائی تعاون، سخت نگرانی، اور عالمی سطح پر مؤثر پالیسی سازی کی فوری ضرورت ہے۔