حالیہ دنوں میں امریکہ نے دی ریزسٹنس فرنٹ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا، جس کے فوراً بعد بھارت کے وزیر خارجہ نے اسے پاکستان کے خلاف الزامات کی مضبوط تصدیق قرار دے کر خوشی کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق یہ اقدام مئی 2025 کے پہلگام حملے میں پاکستان کے مبینہ کردار کی توثیق ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اس حوالے سے کوئی آزادانہ تحقیقات نہیں ہوئیں، نہ ہی کسی قسم کا قابلِ اعتبار ثبوت عوام کے سامنے لایا گیا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ بین الاقوامی اداروں کے فیصلوں کو سیاسی بیانیہ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ لیکن ان عالمی نامزدگیوں کو کسی ریاست کے خلاف قطعی ثبوت سمجھنا ایک خطرناک غلطی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف نہ صرف عملی اقدامات کیے بلکہ انہیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم بھی کیا گیا۔
پاکستان کا ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے اخراج لابنگ یا سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر نہیں ہوا، بلکہ اس کے پیچھے سنجیدہ ادارہ جاتی اصلاحات تھیں۔ انہی اصلاحات کو اب بین الاقوامی سیاست میں پوائنٹ سکورنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جو بددیانتی کے مترادف ہے۔
پاکستان نے 2015 سے اب تک 70 سے زائد کالعدم تنظیموں پر پابندی عائد کی، جن میں ٹی آر ایف بھی شامل ہے۔ مدارس اصلاحات، مالی نگرانی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار میں نمایاں بہتری آئی ہے، اور یہ سب کچھ عالمی دباؤ اور نگرانی کے باوجود ہوا۔
عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ اس وقت داؤ پر ہے، اور اب اس کے لیے محض مبہم وضاحتیں کافی نہیں۔ اسے اپنے اقدامات کو شفاف اور قابلِ تصدیق انداز میں دنیا کے سامنے لانا ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی سنجیدہ کوششیں کسی بھی ملک یا ادارے کی سیاسی مصلحتوں کے تابع نہیں ہونی چاہئیں۔
پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے جس نے داخلی امن کے لیے بڑے چیلنجز کا سامنا کیا اور خود قربانیاں دی ہیں۔ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر زمینی حقائق کو مدنظر رکھے اور پاکستان کی کوششوں کو سراہنے کا حوصلہ رکھے۔