وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف کی جانب سے دوحہ میں عرب-اسلامی سربراہی اجلاس کے دوران اسرائیل کے خلاف عرب اسلامی ٹاسک فورس کے قیام کا مطالبہ محض ایک سفارتی بیان نہیں بلکہ وقت کی ایک سخت ضرورت ہے۔ آج جب کہ اسرائیل کھلے عام بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور علاقائی خودمختاری کو پامال کر رہا ہے، تو ایسے میں محض بیانات اور مذمتیں کافی نہیں رہ گئیں۔ ایک مؤثر، منظم اور متحد اسلامی ردعمل ہی اسرائیلی جارحیت کو لگام دے سکتا ہے۔ شہباز شریف کا خطاب اس تناظر میں نہایت اہم اور جراتمندانہ تھا کیونکہ انہوں نے محض غزہ کے عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی تک خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ قابلِ عمل تجاویز بھی پیش کیں۔
اسرائیل کی جانب سے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر حملہ نہ صرف عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ پورے خطے میں امن کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ یہ حملہ نہ صرف قطر کی خودمختاری پر حملہ ہے بلکہ اسلامی دنیا کے اجتماعی وقار پر بھی ضرب ہے۔ ایسے میں شہباز شریف کی جانب سے یہ کہنا کہ "یہ الگ تھلگ واقعات نہیں بلکہ ایک وسیع تر بالا دستی کے ایجنڈے کا حصہ ہیں” ایک درست تجزیہ ہے۔ اسرائیل نہ صرف فلسطین بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اور اس کی راہ میں رکاوٹ بننے والے ہر ملک یا فرد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
پاکستان کی جانب سے دی گئی تجاویز میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ اسرائیل کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر عالمی سطح پر جوابدہ ٹھہرایا جائے۔ یہ ایک ایسا مطالبہ ہے جسے اب صرف الفاظ تک محدود نہیں رہنے دینا چاہیے۔ بین الاقوامی عدالتیں، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اگر واقعی انسانی حقوق کے علمبردار ہیں تو اب انہیں عمل کر کے دکھانا ہوگا۔ اسی طرح اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کرنے کی تجویز بھی ایک ایسا سخت پیغام دے سکتی ہے جو اس کے جارحانہ رویے کو روکنے میں مددگار ثابت ہو۔
اسلامی دنیا اگر واقعی فلسطینی عوام کے ساتھ مخلص ہے تو اب وقت آ گیا ہے کہ وہ محض قراردادوں اور بیانات سے آگے بڑھے۔ شہباز شریف کی جانب سے عرب اور اسلامی ممالک کے لیے ایک مشترکہ ٹاسک فورس بنانے کی تجویز ایک عملی قدم ہے۔ ایسی فورس نہ صرف اسرائیل کے خلاف سفارتی، اقتصادی اور میڈیا کی سطح پر محاذ کھول سکتی ہے بلکہ عالمی اداروں پر دباؤ بھی ڈال سکتی ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف مؤثر کارروائی کریں۔ اس میں انسانی حقوق کے ماہرین، قانونی ماہرین، سفارت کار، اور میڈیا پر اثر رکھنے والے افراد شامل ہو سکتے ہیں جو دنیا بھر میں اسرائیلی جرائم کو بے نقاب کریں۔
آخر میں، شہباز شریف کا یہ کہنا نہایت اہم ہے کہ "ثالثی کا کردار مقدس اور ناقابلِ دست اندازی ہوتا ہے”۔ اسرائیل نے صرف حملے نہیں کیے بلکہ ان تمام کوششوں کو بھی سبوتاژ کیا ہے جو امن قائم کرنے کے لیے کی جا رہی تھیں۔ اگر اب بھی اسلامی دنیا خاموش رہی تو یہ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں رہے گا، یہ کل ان تمام ریاستوں کے لیے خطرہ بن جائے گا جو آزادی، خودمختاری اور وقار پر یقین رکھتی ہیں۔
اسلامی دنیا کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کیا وہ اسرائیلی جارحیت کے سامنے محض تماشائی بنی رہے گی، یا متحد ہو کر ایک عملی، مؤثر اور باعزت جواب دے گی؟ پاکستان نے پہل کی ہے — اب باقیوں کو بھی خواب سے جاگنا ہوگا۔