دنیا بھر میں توانائی کے متبادل ذرائع کی طرف تیزی سے منتقلی اور صنعتی ترقی کے نئے تقاضے اب معدنی وسائل کو محض معاشی نہیں بلکہ اسٹریٹیجک اثاثہ بنا چکے ہیں۔ خاص طور پر لیتھیئم، کوبالٹ، نکل، اور تانبا – آج کی عالمی معیشت، دفاعی صنعت، اور ماحولیاتی پالیسیوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی بن چکے ہیں۔ ایسی صورت میں، امریکہ کی جانب سے پاکستان کی طرف بڑھایا جانے والا حالیہ سفارتی ہاتھ، اور جولائی کے آخر میں دو طرفہ تجارتی معاہدے کے تحت پاکستانی مصنوعات پر ٹیرف کم کرنا، محض ایک تجارتی رعایت نہیں بلکہ ایک بڑی اسٹریٹیجک چال کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے۔ جس وقت دنیا چین کے معدنیاتی غلبے سے چھٹکارا پانے کے لیے نئے شراکت دار تلاش کر رہی ہے، پاکستان اپنی ارضیاتی دولت کے بل بوتے پر ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس تانبے، لیتھیئم، کوبالٹ، نکل، اور دیگر قیمتی معدنیات کے ذخائر موجود ہیں، جن کی مالیت کا اندازہ 6 ٹریلین امریکی ڈالر تک لگایا جا چکا ہے۔ بلوچستان کا ریکوڈک منصوبہ، چترال اور گلگت بلتستان کے لیتھیئم اور نایاب زمینی دھاتوں کے ذخائر، پاکستان کو اس عالمی دوڑ میں جگہ دلانے کے لیے کافی ہیں — اگر ملک خود کو تیار کرے۔
امریکہ کی دلچسپی محض تجارتی منافع تک محدود نہیں۔ چین کی عالمی معدنیات کی سپلائی چین میں برتری — خاص طور پر ریفائننگ اور ریئر ارتھ میٹلز میں — نے امریکہ کو مجبور کیا ہے کہ وہ نئی راہیں تلاش کرے۔ چاہے وہ افغانستان میں چینی سرمایہ کاری ہو، یا افریقی ممالک میں چین کی موجودگی، امریکہ کو اس دوڑ میں پیچھے رہنے کا احساس شدت سے ہو رہا ہے۔ اس کے جواب میں، امریکہ نے نہ صرف مقامی سطح پر نایاب دھاتوں کی پیداوار کو فروغ دیا بلکہ Quad جیسے فورمز میں شامل ہو کر نئے اتحادیوں کی تلاش بھی شروع کی ہے۔ پاکستان کے ساتھ حالیہ تجارتی رعایت اور معدنی تعاون کی بات چیت اسی بڑی اسٹریٹیجی کا حصہ ہے۔
پاکستان کو سب سے پہلے اپنے اندرونی مسائل سے نمٹنا ہوگا، جن میں سیاسی عدم استحکام، کرپشن، ادارہ جاتی کمزوری، اور ریگولیٹری غیر یقینی صورتحال شامل ہیں۔ اگرچہ قدرتی دولت بے شمار ہے، لیکن اُس کو نکالنا، پراسیس کرنا، اور عالمی معیار کے مطابق مارکیٹ میں لانا ایک مکمل نظام اور طویل مدتی ویژن کا تقاضا کرتا ہے۔ بدقسمتی سے، ہماری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہم نے اکثر ایسی قدرتی دولت کو ضائع کیا یا بیچ راہ میں چھوڑ دیا۔ ریکوڈک کیس اس کی ایک واضح مثال ہے، جس نے ایک دہائی سے زائد پاکستان کو قانونی اور معاشی مشکلات میں الجھا رکھا۔
اس موقع پر ایک قومی معدنی پالیسی اور اسٹریٹیجی کی اشد ضرورت ہے جو نہ صرف مقامی سرمایہ کاروں کو اعتماد دے، بلکہ غیر ملکی شراکت داروں کے لیے بھی سازگار ماحول فراہم کرے۔ امریکہ، یورپی یونین، خلیجی ممالک، حتیٰ کہ چین بھی، ایسے مواقع کے متلاشی ہیں جہاں وہ نئی سرمایہ کاری کر سکیں۔ اگر پاکستان نے اپنے معدنی شعبے کو عالمی معیار کے مطابق ترقی دی، تو وہ نہ صرف اپنی معیشت کو سہارا دے سکتا ہے بلکہ خود کو عالمی اسٹریٹیجک اہمیت رکھنے والی ریاستوں میں شمار کروا سکتا ہے۔
بالآخر، یہ وقت صرف قدرتی دولت رکھنے کا نہیں بلکہ دانشمندانہ حکمتِ عملی، پالیسی تسلسل، اور علاقائی و عالمی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات قائم کرنے کا ہے۔ امریکہ کے ساتھ حالیہ قربت اور معدنی تعاون کی باتیں، پاکستان کو دنیا کے اس نئے وسائل کے کھیل میں ایک اہم کھلاڑی بنا سکتی ہیں — بشرطیکہ ہم سنجیدگی سے کھیلنے کو تیار ہوں۔