پاکستان ایک بار پھر اپنی قبائلی علاقوں میں دہشتگردی کی نئی لہروں کا سامنا کر رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں خیبر پختونخوا کی حکومت کے کچھ بیانات نے قومی سلامتی کے حساس معاملے کو سیاست کی نذر کر دیا ہے۔ خاص طور پر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کا یہ اعلان کہ "ہمارا صوبہ کسی بھی آپریشن کی اجازت نہیں دے گا” انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور ملک کے مفاد کے خلاف ہے۔ اس بیانیے نے نہ صرف ہمارے دشمنوں کو ایک غلط پیغام دیا ہے بلکہ ہمارے خود کے قومی انسداد دہشتگردی کے عزم کو کمزور کرنے کا باعث بھی بنا ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں میں شمالی وزیرستان، باجوڑ اور لوئر دیر جیسے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز ہوئے، جن میں تقریباً 19 جوان شہید اور 45 سے زائد دہشتگرد مارے گئے۔ یہ آپریشنز سخت مزاحمت کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ تحریک طالبان پاکستان افغان سرحد کے پار سے اپنی پلاننگ کرتی ہے اور اپنے ٹھکانوں سے بارڈر کراس کر کے حملے کرتی ہے۔ آئی ای ڈی حملے، گھات لگانا، سنائپر گن کر حملے اور دیگر عسکری طریقے اب بھی جاری ہیں۔
ٹی ٹی پی کو افغانستان میں پناہ گاہیں حاصل ہیں اور کابل حکومت ان پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ اس لیے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ متحدہ حکمت عملی کے تحت دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرے۔
وزیر اعلیٰ کا یہ موقف کہ "صوبہ کسی آپریشن کی اجازت نہیں دے گا” درحقیقت یہ پیغام دیتا ہے کہ خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومت کے درمیان قومی سلامتی پر یکجہتی نہیں۔ یہ علیحدہ پن دشمن کے لیے کھلی دعوت ہے کہ وہ پاکستان کی داخلی تقسیم سے فائدہ اٹھائیں۔ جب سیاسی قیادت متفق نہ ہو تو فوج اور سیکیورٹی ادارے بھی اپنی کارروائیوں میں درپیش مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
دہشتگردوں کو جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے خلاف لڑنے والی قوم میں اختلاف ہے، تو وہ اور زیادہ جراتمند ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کا حوصلہ بھی ٹوٹتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی حفاظت کے لیے حکومتی ادارے متحد نہیں۔
ہم سب کو یاد ہے کہ پچھلے کئی سالوں میں فوج نے قبائلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر آپریشنز کیے ہیں جن کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔ جیسے سوات، شمالی اور جنوبی وزیرستان کی مثالیں۔
لیکن عسکری کارروائی کے بعد حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان علاقوں میں استحکام لائے، تباہ شدہ انفراسٹرکچر کو دوبارہ بحال کرے، متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دے، اور انہیں دوبارہ اپنی زمینوں پر آباد کرے۔
صرف فوجی طاقت سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، حکومتی خدمات اور فلاحی کام بھی برابر ضروری ہیں تاکہ دہشتگردوں کی حمایت کرنے والے لوگ ریاست کے قریب آئیں اور امن قائم ہو۔
دہشتگردی کا مسئلہ صرف کسی ایک صوبے کی سرحدوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک قومی مسئلہ ہے جس کا حل بھی قومی سطح پر مشترکہ حکمت عملی سے ہی ممکن ہے۔
اگر ہر صوبہ اپنی اپنی ترجیحات کو قومی سلامتی سے اوپر رکھے گا، تو اس سے ملک کا نقصان ہوگا۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایک متحد پاکستان ہی دہشتگردوں کے خلاف موثر اور کامیاب جنگ لڑ سکتا ہے۔ اس لیے مرکز اور صوبوں کو ایک پیغام، ایک حکمت عملی اور ایک عزم کے ساتھ سامنے آنا ہوگا۔
یہ حقیقت ہے کہ ہر روز ہماری فوج کے جوان اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں۔ صرف اس ماہ میں ایک ہی ہفتے کے دوران تقریباً بیس فوجی شہید ہوئے۔ یہ قربانیاں بہت قیمتی ہیں اور ہمیں اپنی سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر انہیں عزت دینی ہوگی۔
قیادت کو چاہیے کہ وہ سیاست کو ایک طرف رکھ کر قوم کی سلامتی اور خوشحالی کو اولین ترجیح دے۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں اتحاد کی ضرورت ہے، تفرقہ بازی نہیں۔
پاکستان کو آج ایسے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں صرف سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک متحدہ موقف اختیار کرنا ہوگا۔ خیبر پختونخوا کی حکومت سمیت تمام سیاسی دھڑوں کو چاہیے کہ وہ قومی سلامتی کو اپنی سیاست سے بالا تر رکھیں اور دہشتگردوں کو یہ پیغام دیں کہ پاکستان متحد ہے، اور دہشتگردی کے خلاف ہر فورس کے ساتھ کھڑا ہے۔
سیاست آ سکتی ہے، لیکن سلامتی نہیں۔ یہی ہمارا قومی فرض ہے کہ ہم اپنے شہداء کی قربانیوں کو ضائع نہ ہونے دیں اور پاکستان کو دہشتگردی سے پاک اور محفوظ بنائیں۔