ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ نے جہاں عالمی طاقتوں کو حکمتِ عملی کی بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے، وہیں پاکستان جیسے خطے کے اہم ملک کو خارجہ پالیسی کے ایک نازک ترین دور سے گزارنا شروع کر دیا ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں — امریکہ، چین، روس — نئی صف بندیوں کی جانب بڑھ رہی ہیں اور مشرقِ وسطیٰ کا جغرافیہ ایک بار پھر بدلنے کو ہے ۔ ایسے میں پاکستان کی سفارتی، تزویراتی اور نظریاتی پوزیشن سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ پاکستان برسوں سے مشرقِ وسطیٰ، چین، امریکہ اور افغانستان کے درمیان توازن کی ایک نازک ڈور پر چلتا آیا ہے، لیکن اب جو منظرنامہ ابھرا ہے وہ اس توازن کو مکمل طور پر بکھیر سکتا ہے۔
اس وقت پاکستان کے سامنے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ کس عالمی صف بندی کا حصہ بنے اور کن رشتوں کو نظرِ ثانی کی بنیاد پر برقرار رکھے۔ ایران اگر اسرائیل کے خلاف میدانِ جنگ میں مضبوط نکلتا ہے تو وہ نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر ایک نئے بلاک کی قیادت کا دعویٰ کرے گا۔ چین اور روس پہلے ہی ایران کے ساتھ معاشی اور عسکری اتحاد کی بنیاد رکھ چکے ہیں، اور اس صورت میں پاکستان کے لیے یہ سوال بہت اہم ہو جائے گا کہ کیا وہ ایران کے بڑھتے ہوئے اثرات کو خوش آمدید کہے یا اپنی عرب دنیا سے جڑی معاشی وابستگیوں کی بنیاد پر فاصلے قائم رکھے۔ ایران کی فتح کا مطلب صرف اسرائیل یا امریکہ کی ہزیمت نہیں ہو گی بلکہ عرب دنیا کا زوال بھی اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ریاستیں جن پر پاکستان نے معاشی انحصار قائم کیا، اس صورتحال میں خود غیر یقینی کے گرداب میں پھنس جائیں گی۔
اس کے برعکس اگر اسرائیل، امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی جنگ میں غالب آتے ہیں تو نہ صرف ایران کو عالمی تنہائی کا سامنا ہوگا بلکہ چین اور روس کے علاقائی عزائم کو بھی وقتی دھچکا لگے گا۔ تاہم، اس صورت میں بھی پاکستان کے لیے امن کی کوئی ضمانت نہیں ہو گی کیونکہ بھارت، اسرائیل اور خلیجی ریاستوں کے درمیان اس وقت جو نئی تزویراتی قربت قائم ہو رہی ہے، وہ پاکستان کے لیے ایک نئے قسم کی سفارتی تنہائی کا دروازہ کھول سکتی ہے۔ بھارت کو مشرقِ وسطیٰ میں جو مقام اور اہمیت دی جا رہی ہے، وہ پاکستان کے تزویراتی مفادات سے براہ راست متصادم ہو سکتا ہے۔
چین، جو پاکستان کا دیرینہ دوست اور سی پیک کا شراکت دار ہے، اب ایران کی جانب غیر معمولی طور پر مائل دکھائی دیتا ہے۔ ایران کے پاس توانائی، خودمختاری، اور نظریاتی ہم آہنگی جیسے عناصر موجود ہیں جو چین کو ایک زیادہ "مضبوط اور خودمختار” سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر لبھاتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر پاکستان داخلی سیاسی خلفشار کا شکار رہا، عسکری ادارے متنازع ہوتے گئے، اور معیشت مسلسل زوال پذیر رہی تو چین کے لیے ایران کو پاکستان پر ترجیح دینا ایک فطری قدم ہوگا۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اور غیر یقینی زاویہ افغانستان اور وسطی ایشیا سے جڑا ہے۔ ایران اور روس اگر مل کر خطے میں نیا بلاک تشکیل دیتے ہیں تو پاکستان کے لیے ان سرحدی علاقوں میں رسائی اور اثر و رسوخ قائم رکھنا آسان نہیں رہے گا۔ افغانستان میں طالبان حکومت سے تعلقات کی نوعیت اگرچہ بہتر ہے، لیکن ایران کے ساتھ ان کے نظریاتی اختلافات اور بارڈر جھڑپیں ایک نئی پیچیدگی پیدا کر سکتی ہیں، جس میں پاکستان کو ثالث یا متاثرہ فریق دونوں میں سے ایک کردار نبھانا پڑ سکتا ہے۔
اس تمام تناظر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اب وہ ملک نہیں رہا جو غیر جانب داری کا لبادہ اوڑھ کر سب سے تعلقات چلاتا رہے۔ بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات نے اسے مجبور کر دیا ہے کہ وہ فیصلہ کرے: کیا وہ ماضی کے غیر واضح نظریات کو تھامے رکھے گا یا اپنے مفادات کو بنیاد بنا کر نئی حکمت عملی ترتیب دے گا۔ اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو مکمل طور پر ازسرنو تشکیل دے۔ یہ پالیسی اب صرف عسکری اداروں کے ہاتھ میں نہیں رہنی چاہیے بلکہ وزارتِ خارجہ، پارلیمانی خارجہ امور کی کمیٹیوں، ماہرین اور تھنک ٹینکس کے باہم اشتراک سے ایک جامع قومی بیانیہ تشکیل دیا جائے۔
پاکستان کو متوازی اتحادوں کے درمیان توازن نہیں بلکہ ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اپنی داخلی سیاسی، معاشی اور سفارتی ساخت کو مضبوط کرے۔ عوامی شعور کو اس عمل میں شریک کیا جائے تاکہ ایک قومی اتفاقِ رائے کے ساتھ پاکستان عالمی فورمز پر اپنی پوزیشن کا دفاع کر سکے۔ اس عمل میں تاخیر خود ایک سٹریٹجک کمزوری بن سکتی ہے۔
ایران اور اسرائیل کی جنگ بظاہر دور ہے، مگر اس کے اثرات پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ چاہے عرب دنیا کا زوال ہو یا ایران کا عروج، چین کا جھکاؤ ہو یا بھارت کی چڑھائی، ہر راستہ پاکستان کے لیے ایک نئی دنیا کے دروازے کی کنجی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم یہ دروازہ خود کھولیں گے، یا کوئی دوسرا ہمارے لیے بند کر دے گا؟