بلوچستان میں مرد اور عورت کے بہیمانہ قتل کرنے کا معاملہ سینیٹ میں بھی پہنچ گیا، حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ذمے داروں کو پھانسی دینے، وزیراعلیٰ اور کابینہ، آئی جی کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی سامنے آیا ۔
اسلام آباد: سینیٹ اجلاس کے دوران اراکین سینیٹر زرقا سہروردی نے معاشرے سے صنفی امتیاز کے خاتمے پر تحریک پیش کی، اور کہا کہ بلوچستان میں ہونے والا واقعہ شرمناک ہے، حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے نمٹائے، معاشرے میں خواتین غیر محفوظ ہیں ۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ بلوچستان میں جو دلخراش واقعہ سامنے آیا ہے، یہ صرف خواتین نہیں پورے معاشرے کا مسئلہ ہے، اس خاتون کا اس مرد سے جو بھی رشتہ ہو اس سے قطعہ نظر اس جرگے نے غیرقانونی کام کیا ۔
انہوں نے کہا کہ خاتون کا اس مرد سے جو بھی رشتہ ہو اس سے قطعہ نظر اس جرگے نے غیرقانونی کام کیا، خواتین پر تو مظالم ابھی بھی ڈھائے جارہے ہیں، بلوچستان میں جس طرح خاتون کو گولی ماری گئی ہے وہ افسوسناک ہے، یہ غیرت کا قتل نہیں بلکہ بے غیرتی کا قتل ہے ۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ بلوچستان سانحہ کو انتہائی افسوسناک کہنا چھوٹا لفظ ہے، دو مہینے تک حکومت کو کیوں اس واقعے کی خبر نہیں ہوئی، وہاں ایک عدالت لگی اور اس جج نے فیصلہ دیا کہ ان کو گولیاں مار دیں، یہ نظام کہاں سے آیا اور اس کو کسی نے کیوں نہیں دیکھا ۔
انہوں نے کہا کہ اس نظام پر کوئی کلہاڑا چلائے گا، وزیراعلی کہتے ہیں ہماری پولیس جب اس گاؤں میں جاتی ہے تولوگ چھتوں پر چڑھ کر پتھر مارتے ہیں، کون ہیں یہ لوگ جو میری بیٹیوں کو گولیاں مارنے کا حکم دیتے ہیں ، یہ نظام بھارت نے آزادی لیتے ہی ختم کردیا تھا ہم آج بھی نہیں کرسکے ۔
سینیٹر ثمینہ زہری نے کہا کہ وہ مرد کی بچی تھی جو ڈٹ کر قاتلوں کے سامنے کھڑی ہوئی، کیا انسانی حقوق صرف انسانی حقوق کیلئے ہیں، ایک دو لوگوں کو پھانسی دے دیں تو معاملات ٹھیک ہوجائیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ نورمقدم ابھی تک زندہ ہے، جرگہ اور جہالت کے نام کو ختم ہونا چاہئے، ان لوگوں کو اسی طرح گولی مارنی چاہیے ۔
وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کا بلوچستان واقعے پر سینٹ میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی خواتین کو بھی کہنا چاہئے کہ وہ اپنے بیٹوں کو بھی سمجھائیں، آئندہ اجلاس میں بھی اس معاملے پر بات کریں گے ۔