بنگلہ دیش نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے چار کلیدی مطالبات پیش کیے ہیں، جو 1971 کی جنگ کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان حل طلب مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ مطالبات اپریل 2025 میں ڈھاکہ میں پاکستانی سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ کے دورے کے دوران سامنے آئے، جو 2010 کے بعد اعلیٰ سطحی سفارتی بات چیت کا پہلا موقع تھا۔
پہلا مطالبہ 1971 کے واقعات پر پاکستان کی جانب سے باضابطہ معافی کا ہے۔ بنگلہ دیش کا دعویٰ ہے کہ جنگ کے دوران مظالم ہوئے، جن کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ دوسرا، 1971 کے بعد اثاثوں کی منصفانہ تقسیم کا معاملہ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بنگلہ دیش نے 4.32 ارب ڈالر کے واجبات مانگے ہیں۔ تیسرا، 1970 کے بھولا سائیکلون کے متاثرین کے لیے موصولہ بین الاقوامی امداد کی رقم کی منتقلی کا مطالبہ ہے، جو مبینہ طور پر پاکستان نے روک لی تھی۔ چوتھا، بنگلہ دیش میں مقیم تقریباً 3,24,447 محصورین (بہاریوں) کی واپسی یا ان کے مستقبل کا فیصلہ، جن میں سے کچھ پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں جبکہ دیگر بنگلہ دیش میں رہنا پسند کرتے ہیں۔
پاکستان نے ان مطالبات پر بات چیت کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستانی نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کے حالیہ دورہ ڈھاکہ کو بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے کامیاب قرار دیا، جہاں تجارت، تعلیم اور سرمایہ کاری جیسے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیا گیا۔ پاکستان نے "پاک-بنگلہ دیش کوریڈور” کے تحت 500 طلبہ کے لیے اسکالرشپس کا اعلان بھی کیا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ان مطالبات کا حل دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی بحالی کے لیے ناگزیر ہے۔ تاہم، کچھ پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معافی دوطرفہ ہونی چاہیے، کیونکہ 1971 میں غیر بنگالیوں کے خلاف بھی تشدد ہوا۔ معاشی اور سفارتی تعلقات کی مضبوطی کے لیے ماضی کے تنازعات کو حل کرنا ضروری ہے، جو خطے میں استحکام کے لیے اہم ہیں۔