یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں، جو ایک عرصے سے بدانتظامی، اخلاقی زوال اور مالی بے ضابطگیوں کی دلدل میں دھنسی ہوئی تھی، اب شاید بہتری کی راہ پر گامزن ہو چکی ہے ۔ نو تعینات وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب نے نہایت خاموشی مگر عزم کے ساتھ جامعہ کے بگڑے ہوئے تعلیمی، مالی اور اخلاقی معاملات کا سنجیدہ جائزہ لینا شروع کر دیا ہے ۔
ان کے ابتدائی اقدامات میں سب سے اہم قدم اقبال زمان کی فوری برطرفی تھا ۔ اقبال زمان وہ شخصیت ہے جو ہراسمنٹ ایٹ ورک پلیس کے متعدد کیسز میں نامزد رہا، جن کی تحقیقات وفاقی محتسب، سیٹیزن پورٹل اور دیگر اداروں کے ذریعے ہو چکی تھیں ۔ انہی رپورٹس کی روشنی میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے انہیں ڈائریکٹر اکیڈمکس کے عہدے سے ہٹا دیا تھا ۔ تاہم جامعہ کے بعض بااثر ملازمین، عزیزاللہ، ظفیراللہ اور صفدر غازی کی مبینہ ملی بھگت سے انہیں اسی عہدے پر غیر قانونی طور پر برقرار رکھا گیا ۔ اقبال زمان کے ہاتھوں دورانِ ملازمت متعدد داخلے اور تعلیمی امور سرانجام دیے گئے، جن کی حیثیت اب مشکوک ہے ۔ وائس چانسلر نے اس غیر قانونی تسلط کا فوری خاتمہ کر کے شفافیت کی بنیاد رکھ دی ہے، اور بعض سینئر افسران اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کی برطرفی کا باضابطہ نوٹیفکیشن ہراسمنٹ کے الزام پر جاری کیا جائے ۔
اب صورتحال یہ ہے کہ وہی عناصر عزیزاللہ، صفدر غازی اور ظفیراللہ، جو ماضی میں اقبال زمان کے پشت پناہ رہے، وائس چانسلر کے خلاف صف آرا ہوتے جا رہے ہیں ۔
مالی بدحالی کا عالم بھی کچھ کم نہیں رہا ۔ اس سال تک یونیورسٹی کی معیشت نازک ترین موڑ پر تھی، اور مختلف اجلاسوں میں شعبہ جاتی بقایاجات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ۔ صرف انگلش ڈیپارٹمنٹ سے تقریباً دو کروڑ روپے کے واجبات وصول طلب ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق عزیزاللہ نے فیس ریکارڈ میں سنگین بد عنوانی کی اور پچاس لاکھ روپے وصولی کے باوجود حسابات میں خردبرد کی کوشش کی ۔ طلبا سے آئندہ سمسٹر کی ایڈوانس فیس بھی لے لی گئی، جس کی باقاعدہ ترسیل یونیورسٹی کے خزانے تک نہیں کی گئی ۔ مگر خوش قسمتی سے وقت پر نشاندہی ہو گئی، جس پر عزیزاللہ سے مکمل ریکارڈ طلب کر لیا گیا ہے ۔
اسی دوران جامعہ کے ریکارڈ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ایک قدم اور اٹھایا گیا ہے ۔ باہر سے ماہرین کو مدعو کیا گیا ہے جو CMS (کیمپس مینجمنٹ سسٹم) کے تحت ریکارڈ کو مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ کریں گے ۔ اس عمل سے نہ صرف شفافیت بڑھے گی، بلکہ گزشتہ برسوں کی ممکنہ مالی و انتظامی بدعنوانیاں بھی بے نقاب ہو سکیں گی ۔
مزید براں، وائس چانسلر نے ایک اور اہم اقدام اٹھاتے ہوئے ظفیراللہ کے بھائی احسان اللہ کی تنخواہیں منسوخ کر دی ہیں، جنہیں غیر قانونی طور پر ڈیلی ویجز پر ساٹھ ہزار ماہوار کے عوض بھرتی کیا گیا تھا ۔ ساتھ ہی ظفیراللہ سے اس ناجائز تقرری پر وضاحت بھی طلب کی گئی ہے ۔
یہ تمام اصلاحاتی اقدامات دراصل ہماری گزشتہ تحقیقاتی رپورٹ کے بعد سامنے آئے ہیں، جو سچ کی طاقت اور صحافت کی اثر انگیزی کا ثبوت ہیں ۔ اس رپورٹ پر نہ صرف جامعہ کی انتظامیہ نے ایکشن لیا بلکہ خفیہ اداروں نے بھی معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے تحقیقات شروع کر دی ہیں ۔ کئی طلباء، اساتذہ اور ملازمین کے بیانات قلمبند کیے جا چکے ہیں ۔
جامعہ میں اصلاحات کا یہ عمل ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے، لیکن وائس چانسلر ڈاکٹر جہانزیب کے عزم اور جرات مندانہ فیصلوں نے امید کی ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے ۔ طلبہ، اساتذہ اور متعلقہ افراد کو اب ایک متحد آواز کے ساتھ شفافیت، انصاف اور احتساب کے اس عمل کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ یہ ادارہ واقعی علم، اخلاق اور ترقی کا مرکز بن سکے ۔
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ صحافت نے ایک بار پھر اپنا فرض ادا کیا ہے ۔ روشنی کی کرن دکھائی دی ہے، اور اب اس راہ کو چھوڑا نہیں جانا چاہیے ۔