شام میں جاری خانہ جنگی کی پیچیدہ صورتحال میں ایک نئی پیشرفت سامنے آئی ہے جس کے مطابق شدت پسند گروہ حیات تحریر الشام کی قیادت میں باغیوں نے ایک ہی ہفتے میں دو بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔ باغیوں نے حلب اور حماہ میں شامی فوج کو پسپائی پر مجبور کیا اور ان شہروں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب ان کا اگلا نشانہ حمص ہے، جو کہ شامی دارالحکومت دمشق کے جنوب میں واقع ہے۔ یہ تیز رفتار پیش قدمی شام میں جنگ کی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے اور بشارالاسد کی حکومت کے لیے ایک نیا چیلنج بن گئی ہے۔
حلب اور حماہ پر قبضہ، باغیوں کی کامیابیاں
گزشتہ ہفتے حیات تحریر الشام نے حلب پر اچانک اور حیرت انگیز حملہ کیا، جس کے بعد صرف چند گھنٹوں میں بڑے علاقے ان کے زیر قبضہ آگئے۔ باغیوں کی اس تیز کارروائی کے دوران شامی فوج کی دفاعی لائنیں ٹوٹ گئیں اور وہ اپنے اہم ٹھکانوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔ اس حملے کے بعد، ایچ ٹی ایس کے جنگجوؤں اور ان کے اتحادیوں نے حماہ شہر میں شدید جھڑپوں کے بعد مرکزی جیل پر قبضہ کر لیا اور متعدد قیدیوں کو رہا کروا دیا۔ حماہ میں شامی فوج کی پسپائی کے بعد اس شہر کا کنٹرول باغیوں نے سنبھال لیا ہے۔
اب حیات تحریر الشام کا اگلا ہدف حمص ہے، جو شام کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ اس شہر کی اہمیت شامی حکومت کے لیے بہت زیادہ ہے، کیونکہ یہ دمشق کے قریب واقع ہے اور اس پر قبضہ کرنے سے باغی قوتیں بشارالاسد کی حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔
ایچ ٹی ایس کا مقصد، بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ
حیات تحریر الشام کے رہنما ابو محمد الجولانی نے حماہ میں "فتح” کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس جنگ کا مقصد صرف بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ ہے اور ملک میں ایک نئی حکومت قائم کرنا ہے جو ان کے نظریات کے مطابق ہو۔
ایچ ٹی ایس کی بنیاد 2011 میں "جبھتہ النصریٰ” کے نام سے رکھی گئی تھی، جو کہ ایک شدت پسند تنظیم تھی اور براہ راست القاعدہ سے منسلک تھی۔ لیکن بعد میں اس نے اپنا نام تبدیل کر لیا اور حیات تحریر الشام کے طور پر شامی حکومت کے خلاف جنگ جاری رکھی۔ یہ تنظیم شامی خانہ جنگی میں سب سے طاقتور اور مہلک گروپ سمجھی جاتی ہے اور اسے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
شام کی تقسیم، بشار الاسد کا چیلنج
شام میں خانہ جنگی کے آغاز سے اب تک بشارالاسد کی حکومت نے مختلف قوتوں کے ساتھ معرکے کیے ہیں۔ یہ جنگ 2011 میں ایک پرامن بغاوت کے طور پر شروع ہوئی تھی، لیکن بعد میں یہ ایک مکمل خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئی۔ اس تنازعے میں اب تک پانچ لاکھ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جبکہ لاکھوں افراد اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں۔
شام اب چار مختلف حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے،ایک حصہ بشار الاسد کی حکومت کے کنٹرول میں ہے، دوسرا حصہ باغیوں کے قبضے میں ہے، تیسرا حصہ کردوں کے زیر انتظام ہے، اور چوتھا حصہ داعش کے زیر کنٹرول ہے۔ اس کے علاوہ، شام میں کئی خود ساختہ مسلح گروہ بھی سرگرم ہیں جن کے مختلف نظریات اور وفاداریاں ہیں۔
روس اور ایران کا کردار
شام میں بشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں سب سے بڑی قوتیں روس اور ایران ہیں۔ روس نے شامی فوج کو فضائی مدد فراہم کی، جبکہ ایران نے شام میں اپنی فوجی موجودگی بڑھا رکھی ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں روس کی توجہ یوکرین کی جنگ کی طرف موڑ گئی ہے، جس کے باعث شامی حکومت کو زمین پر مزید مدد کی کمی کا سامنا ہے۔ اسی دوران، ایران کی حمایت میں بھی کچھ کمی واقع ہوئی ہے، کیونکہ حزب اللہ کی فوجی قوت میں کمی آچکی ہے۔
اسرائیل کا کردار اور خطرات
اسرائیل شام کی صورتحال میں ایک متحرک کھلاڑی ہے۔ اسرائیل نے شامی حکومت کے خلاف کئی فوجی کارروائیاں کی ہیں اور اس نے سنہ 2015 سے ایران اور حزب اللہ سے منسلک اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملے شروع کیے تھے۔ اسرائیل کا ماننا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت اس کے لیے براہ راست خطرہ نہیں ہے، کیونکہ اس نے اسرائیل کے ساتھ اپنی سرحدوں پر خاموشی یا امن برقرار رکھا ہے۔
تاہم، اسرائیل کے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کا تسلسل اسرائیل کے لیے فائدہ مند ہے، کیونکہ یہ وہ "شیطان ہے جسے ہم جانتے ہیں”۔ لیکن اسرائیل کے کچھ مبصرین کے مطابق، ایران اور حزب اللہ کے اثرورسوخ میں کمی کے پیش نظر باغی گروپوں کی حمایت کرنا اسرائیل کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
شامی عوام کی بدترین حالت
شام کی صورتحال میں شہریوں کی حالت بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق شام کی آبادی 22 ملین تھی، جن میں سے آدھے بے گھر ہو چکے ہیں۔ تقریباً 20 لاکھ افراد کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ 60 لاکھ سے زیادہ افراد نے ملک چھوڑ کر لبنان، اردن اور ترکی میں پناہ لی ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ پناہ گزین ترکی میں ہیں، جہاں 50 لاکھ سے زائد شامی شہری موجود ہیں۔
حیات تحریر الشام کی تیزی سے پیش قدمی نے شام میں جنگ کی صورت حال کو ایک نئی سمت دی ہے۔ حلب اور حماہ جیسے بڑے شہروں کا قبضہ باغیوں کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے، اور ان کا اگلا ہدف حمص ہے۔ اس کے ساتھ ہی، شام کی تقسیم اور مختلف قوتوں کی حمایت میں کمی نے علاقے میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔ جنگ کے اس نئے مرحلے میں شامی عوام کی حالت بدتر ہو چکی ہے اور دنیا بھر کے ممالک اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے مختلف کوششیں کر رہے ہیں۔