عوامی نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنماحاجی غلام بلور نے مرکہ کے میزبان حسن خان سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کہ ہمیں اس لئے ہرایا گیا ہے کہ ہم نے 18 ویں ترمیم پر سخت موقف اپنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا الیکشن میں عوام نہیں بلکہ کوئی اور قوت فیصلہ کرتی ہے کہ کس نے حکومت میں آنا ہے۔ کون حکومت میں رہے گا۔ کون حکومت سے جائے گا۔ ان کے مطابق ان کی اپنی اپنی ووٹ بینک موجود ہونے کے باوجود ان کے مخالف نے ان سے زیادہ زیادہ ووٹ لئے ہیں۔ایسا صرف ایک صورت میں ممکن ہے کہ ان کو دوسری قوتوں کی حمایت حاصل ہو۔ دوسری قوتوں کی حمایت کی وجہ سے ہی ان کے مخالف جیت سکے ہیں۔کسی کا نام لینے کی بجائے انہوں نے دوسری قوتوں کا لفط استمعال کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صحت ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ جو لوگ تندرست ہیں ان کو شکر ادا کرنا چائے۔اپنی صحت کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ان کی اب عمر زیادہ ہوگئی ہے،جس کی وجہ سے ان کے صحت بھی متاثر ہوئی ہے۔صحت کے مسائل کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں پارلیمانی سیاست میں حصہ نہ لوں۔ ویسے بھی اگر ادارے نہیں چاہتے ہیں کہ ہم جیتیں تو پھر ضرورت ہی نہیں ہے کہ الیکشن میں حصہ لیں۔ بہرحال میں پارٹی چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنماحاجی غلام بلور نے ایمل ولی خان کے بارے میں کہا کہ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ سیاست کو کس طرف لے جانا ہے۔میں مانتا ہوں کہ نے خیبر پختونخوا میں مذہبی اور نیشنلسٹ سیاست کو عمران خان نے کو بہت ٹف ٹائم دیا ہے اور خیبر پخونخوا کی عوام نے مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کو مسترد کردیا ہے۔ اس لئے ہمیں الیکشن سے پہلے یہ توقع تھی کہ جماعت اسلامی ، پی پی پی اور مسلم لیگ ن بہت کمزور پارٹی ہوگئی ہے اور ہم الیکشن میں اس طرح اچھی سیٹیں نکالیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا کیونکہ ہمارے ہاں لیڈرشپ کا فقدان ہے ساتھ ہی عمران خان جیسا لیڈر ہمارے پاس نہیں ہے، اس لئے ہم ہار گئے ہیں۔ اسفندیار ولی خان بہترین لیڈر ثابت ہوئے ہیں انہوں نے باچا خان اور ولی خان کے وژن کو عملی جامعہ پہنایا۔بلاول بھٹو کے بارے میں خیبر نیوز کے پرگرام مرکہ میں ہوسٹ حسن خان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو کے پشاور میں ناکام جلسوں کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ ایمل ولی خان اور حیدر خان ہوتی کو جلسوں کیلئے نہیں بلائیں گے۔ الیکشن ہارنے سے سیاسی پارٹیاں ختم نہیں ہوتی ہیں۔سیاسی جماعتوں کو چاہیئے کہ وہ آپس میں بات کرئے۔بات چیت تو دشمن سے بھی کرنی چائیے،۔ پی ٹی آئی سے بات چیت سے انکار کرنا اچھی روایت نہیں ہے۔ اس بارے میں ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔ جس کی وجی سے میں پارٹی سے ناراض نہیں ہوں۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ)کا عمران خان کو نکالنے کے بعد حکومت میں آنا نہ صرف خود سے زیادتی تھی بلکہ پاکستان سے بھی زیادتی تھی۔ عمران خان کی اپنی پاپولیرٹی ختم ہوگئی تھی،لیکن عمرا ن خان کو نئی زندگی سیاسی پارٹیوں نے حکومت میں آکر بحش دی ہے۔آخر میں انہوں نے علی امین گنڈا پور کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ اب یہ نہیں معلوم کہ علی امین گنڈا پور کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونےسے کہ جنوبی اضلاع میں بہتری آئے گی یا نہیں آئے گئی۔