حالیہ دنوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی نے ایک نیا موڑ اس وقت لیا جب ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اپنی پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ بھارت نے مبینہ طور پر اسرائیلی ساختہ ہیروپ ڈرون پاکستان پر حملے کے لیے استعمال کیا۔
ہیروپ ڈرون جسے اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز (IAI) کے ایم بی ٹی میزائل ڈویژن نے تیار کیا ہے، دنیا کے خطرناک ترین "لوئٹرنگ ایمونیشن” یعنی بھٹکنے والے گولہ بارود میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ یہ ڈرون میدان جنگ میں فضائی دفاعی نظام، ریڈار اسٹیشنز، اور دیگر اہم عسکری اہداف کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ ایک منفرد ہتھیار ہے جو بغیر پائلٹ کے اڑان بھرنے والی گاڑی (UAV) اور میزائل کی خصوصیات کا امتزاج پیش کرتا ہے۔ ہیروپ ڈرون خودمختاری سے کام کرسکتا ہے، یا اسے انسانی نگرانی میں ‘ہیومن اِن دی لوپ’ طریقے سے چلایا جا سکتا ہے۔ اگر کسی ہدف پر حملہ ممکن نہ ہو تو یہ ڈرون واپس اڈے پر لوٹ سکتا ہے، جو اسے دیگر خودکش ڈرونز سے ممتاز بناتا ہے۔
یہ ڈرون فولڈنگ پروں کے ساتھ خصوصی کنسٹر سے لانچ کیا جاتا ہے، جو ٹرک یا بحری جہاز پر نصب ہو سکتا ہے۔ یہ لانچ کے فوراً بعد فضا میں پرواز کرتا ہے اور اپنے ہدف کی تلاش میں ‘لوئٹر’ یعنی چکر لگاتا ہے۔ جیسے ہی ہدف کی شناخت ہوتی ہے، یہ تیزی سے نیچے آکر خود کو ٹارگٹ پر گرا دیتا ہے — جس سے زبردست دھماکہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر فہد عرفان صدیقی، ایسوسی ایٹ پروفیسر مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، نے ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو میں بتایا کہ ہیروپ ایک جدید ملٹری گریڈ ٹیکنالوجی پر مبنی ڈرون ہے، جسے نہ صرف حملے بلکہ جاسوسی اور ڈیٹا اکٹھا کرنے جیسے مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ عام سول ڈرونز، جیسے فوٹوگرافی یا ایگری کلچر کے لیے استعمال ہونے والے، جیمرز کے ذریعے کنٹرول سے باہر ہو سکتے ہیں، لیکن سیٹلائٹ سے جُڑے فوجی ڈرونز کو روکنا خاصا مشکل ہے۔
ٹی آر ٹی گلوبل کی رپورٹ کے مطابق بھارت نے گزشتہ ایک دہائی میں اسرائیل سے 2.9 ارب ڈالر مالیت کے عسکری ساز و سامان درآمد کیے، جن میں نگرانی کے آلات، ریڈار سسٹمز، اور ڈرونز شامل ہیں۔ ان میں ہیروپ ڈرون سرفہرست ہے، جسے بھارت اپنی جدید عسکری حکمت عملی کا اہم جزو بنا چکا ہے۔
ہیروپ ڈرون کا مؤثر استعمال پہلے بھی دیکھا جا چکا ہے، خاص طور پر 2016 اور 2020 میں آذربائیجان نے ناگورنو-کاراباخ تنازع کے دوران آرمینیا کے خلاف اس کا بھرپور استعمال کیا۔ ایک واقعے میں اس ڈرون نے فوجیوں سے بھری بس کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں کئی ہلاکتیں ہوئیں۔
بین الاقوامی قوانین کے مطابق 250 گرام سے زائد وزنی ڈرونز کے لیے سول ایوی ایشن اتھارٹی سے لائسنس ضروری ہے۔ ایسے ڈرونز کو حساس علاقوں، جیسے ہوائی اڈے، فوجی تنصیبات یا بین الاقوامی سرحدوں کے قریب اڑانا ممنوع ہے۔ اس کے باوجود، ہیروپ جیسے جدید جنگی ڈرونز کا استعمال بین الاقوامی سیکیورٹی اور خودمختاری کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔
پاکستان میں حالیہ حملے میں ہیروپ ڈرون کے مبینہ استعمال نے نہ صرف علاقائی سلامتی کے لیے نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں بلکہ یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ جدید جنگ اب زمین تک محدود نہیں رہی — آسمان بھی اب میدان جنگ ہے۔