(مدثر حسین) ایک ایسے وقت میں جب ہر چیز انٹرنیٹ، کمپیوٹر اور موبائل فون میں سمٹ چکا ہے، دنیا فورجی سے فائیو جی کی طرف بڑھ چکی ہیں، ہم وآپس ٹوجی کے زمانے میں جا رہے ہیں، پاکستان میں انٹرنیٹ پر نئی پابندیاں یقینناً قابل تشویش ہیں کیونکہ اکثریتی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے،جنکے ہاتھ ہر وقت موبائل کرسر پر گھوم رہے ہوتے ہیں ایسے میں اگر نیٹ سلو ہوگا تو انکی انٹرنیٹ سرفنگ متاثر ہوگی، اور نتیجہ فریاد، دہائی اور تنقید کی شکل میں سب کے سامنے ہے۔
محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں گیارہ کروڑ لوگ انٹرنیٹ کے استعمال کنندگان ہیں، مطلب تقریباً 45 فیصد آبادی انٹرنیٹ پر موجود ہے، اگر سوشل میڈیا صارفین کی تعداد کو گنا جائیں تو یہ تقریباً سات کروڑ بنتی ہیں، پہلے فیس بک، ایکس اور اب ٹک ٹاک یہاں کے نوجوانوں کے مقبول سوشل میڈیا سائٹس ہیں، جہاں آپکو سیاست پر گفتگو سے لیکر قابل سینسر انٹرٹینمنٹ تک ہر چیز ملتی ہیں، لیکن حالیہ کچھ عرصے سے سیاسی ماحول کو جواز بنا کر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے غیر اعلانیہ طور پر انٹرنیٹ کو سلو کردیا ہے، جسکی وجہ سے نہ صرف سیاسی ماحول میں گھٹن بڑھ رہی ہے بلکہ ساتھ ساتھ لوگوں کے روزگار بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں، کل ہی ایک بائیک رائیڈر نے تاسف کیساتھ بتایا، کہ پہلے دن میں پندرہ بیس رائیڈز لیتا تھا، اب وہ تعداد آٹھ تک گر گئی ہیں، وجہ انٹرنیٹ سلو ہونے کی وجہ سے لوگوں کو رابطوں میں دقت ہے۔ بات صرف رائیڈرز کی نہیں، بلکہ بہت سے فری لانسرز بھی اس صورتحال سے نہایت پریشان ہیں، یہ وہ لوگ ہے جو باہر سے کام پکڑ کر پاکستان میں ڈالرز لانے کا کام کرتے ہیں، اب انکا دھندہ بھی چوپٹ ہوچکا ہیں، سنا ہے کہ کچھ فری لانسنگ ویب سائٹس نے پاکستانی فری لانسرز کو انٹرنیٹ سلو ہونے کی وجہ سے اپنی لسٹ سے عارضی طور پر ہٹایا ہے، بہت مشکل سے پاکستانی نوجواںوں نے عالمی مارکیٹ میں جو تھوڑی بہت جگہ بنائی تھی، وہ جگہ بھی اب بھارت، بنگلہ دیشن، کینیا اور ان جیسے دوسرے ممالک قبضہ کر لیں گے، اس سے ملک کو معاشی، اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بے انتہا نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔
انٹرنیٹ سلو ہونے کی بظاہر بڑی وجہ ، بقول آئی ایس پی آر ڈیجٹل دہشتگردی ہے، یہ اصطلاح ان نوجوانوں اور سیاسی رہنماوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، جو نو مئی پر ریاستی بیانیے کو ماننے سے منکر ہیں،یہ سیاسی منکرین اداروں اور انکی پالیسیوں پر تنقید سے لیکر اعلیٰ عدلیہ کے ججز پر رکیک حملوں تک ہر دیوار کو پار کرنے پر یقن رکھتے ہیں، ادارے نے ہر ممکن کوشش کی قیدی ۸۰۴ کی گرفتاری کے بعد سے بگڑتی صورتحال کو قابو کریں، لیکن آزاد انٹرنیٹ کے ہوتے ہوئے یہ مشکل تھا، تبھی تو فائر وال لگا کر انٹرنیٹ کو ٹو جی سپیڈ پر لایا گیا،سوال یہ بنتا ہے کہ کیا اس سے حالات کنٹرول ہوجائینگے، ؟ جواب صاف ظاہر ہے کہ نہیں، کیونکہ یہ جنرل ضیا کا زمانہ تھوڑی ہے، جو آپ سوچ وفکر پر قدغنیں لگا کر، کوڑے مار کر، اخبارات کے ڈکلیریشن منسوخ کر کے بدترین سینسر شپ لاگو کریں گے، یہ اکیسوی صدی ہے، جس میں کی بورڈ وارئیرز کے سامنے اپکی روایتی بند کرو والی پالیسی ٹکنے والی نہیں۔
ایسا نہیں کہ یہ صرف پاکستان میں ہورہا ہے، چین میں یہاں سے بھی سخت فائر وال ہے، ویبو کے علاوہ وہاں باقی سوشل میڈیا سائٹس تک رسائی مسدود ہیں، روس میں ٹیلی گرام کو چھوڑ کر باقی سوشل میڈیا کنٹرولڈ ہیں، ایران، ترکیے، سعودیہ، بلکہ خود امریکہ میں انٹرنیٹ کی ازادی کو روک لگائی جارہی ہیں تبھی تو ایکس پر ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاونٹ بند کیا گیا تھا، فیس بک، واٹس ایپ کی مدر کمپنی میٹا، اسرائیل سے متعلق خبروں کو دبانے کی پالیسی پر سختی سے کاربند ہیں۔
ایک مادر پدر آزاد انٹرنیٹ یقینا ریاستی استحکام، معاشرتی ہم آہنگی، اور جمہوری اقدار کے لیے خطرناک ہے، لیکن اسکا حل انٹرنیٹ بند یا سلو کرنا بھی نہیں، چونکہ اب ہر چیز انٹرنیٹ سے جڑی ہوئی ہے، ہسپتال میں اپائمنٹ سے لیکر ان لائن ایجوکیشن تک ، انٹرنیٹ پر انحصار ناقابل واپسی ہے، بہتر ہوتا اگر ارباب اختیار ان سوشل میڈیاساٹس پر پہرے لگاتے جہاں سے انکو فساد کی بو آتی ہے، باقی انٹرنیٹ کو آزاد رہنے دیتے، لیکن کیا کریں یہ تجویز بھی گریڈ اٹھارہ کے سرکاری بابو کی طرف سے آئی ہوگی، جس کو پرکھے بغیر اس کے اوپر اوکے کا جواب آیا ہوگا، اگر کاروبار نہیں ہوگا، تو بے روزگاری بڑھے گی، اور پھر جو فساد بڑھے گا کیا کسی نے اس بارے میں بھی کچھ سوچا ہے ؟؟؟