اسلام آبامیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئرترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ یہ بات ذہن نشین کر لیں ہو نہیں سکتا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہو۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ انتظامی اداروں کو سمجھنا ہوگا ان کے پاس فیصلوں پر عمل درآمد کے سوا کوئی چوائس نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں سینئر ترین جج ہوں قائم قام چیف جسٹس نہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ میرے دوست ہیں اور وہ چیف جسٹس پاکستان ہیں، میں سینیئر ترین جج ہی ٹھیک ہوں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارا آئین بہت خوب صورت ہے، افسوس کی بات ہے سپریم کورٹ کے 2014 کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا،
ان کا کهنا تها که اقلیتوں کے بنیادی حقوق سے متعلق سپریم کورٹ نے 2014 میں فیصلہ دیا، یہ ممکن نہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہو لیکن یہاں ایک مثال بنی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں سب بیٹھے ہیں اور وہ سمجھتے ہوں گے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ایسے عمل درآمد نہیں ہوتا تو ایسا نہیں ہے، سپریم کورٹ کے فیصلوں پر بالکل عمل درآمد ہوتا اور یہی آئین کا ڈھانچہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایسا سوچاجائے گا تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی، یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ آئین کہتا ہے اور سپریم کورٹ یہ اختیار آئین سے لیتی ہے کسی اور دستاویز سے نہیں لیتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کسی فیصلے یا حکم کو مسترد یا تاخیر نہیں کی جاسکتی ہے ورنہ سارے قانونی نظام کو آپ بگاڑ کر رکھ دیں گے، آئین کا سارا توازن خراب کردیں گے اگر آپ اس طرف چل پڑے کہ فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہونا چاہیے تو ایسا ہو نہیں سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دے دیا تو اس پر عمل ہونا ہے اور یہی اس ملک کا نظام اور آئین ہے، کوئی نیا نظام بنانا چاہتے ہیں تو پہلے بنالیں پھر اس سلسلے میں بات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ فیصلوں پر عمل درآمد کرنا آئینی تقاضا ہے ورنہ اس کے سنگین نتائج ہیں، یہ میں اس لیے واضح کر رہا ہوں کیونکہ یہاں ہم دیکھ رہے ہیں ایک فیصلہ بڑے عرصے چل رہا ہے اور اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے تو ایسا نہیں ہوگا، اس فیصلے کو بھی ہم دیکھیں گے۔