یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ جس بات کی ٹھان لے پھر اس کیلئے اس کے پاس دلائل بھی ہزاروں ہوتے ہیں اور جس بات کو اس کا دل قبول نہ کرے (چاہے وہ غلط ہو یا ٹھیک) اس کی حمایت کرنے پر بھی اس کو کوئی مجبور نہیں کر سکتا۔ اب اس کیلئے کسی کا کسی بڑے عہدے پر فائز ہونا بھی ضروری نہیں۔ لیکن اگر کوئی کسی بڑے عہدے پر فائز ہو (بالخصوص سیاستدان) تو ان کو اپنے پارٹی قائدین جو بتاتے ہیں اس کی تشریح کرنا اور اس پر ہر کسی کو قائل کرنا ان کی مجبوری بن جایا کرتی ہے ۔مثال کے طورپر ایک سیاسی جماعت جب تک اپوزیشن میں ہو اس کو حکومت کے سارے کام برے لگتے ہیں اور حکومت کو اپوزیشن کا سیاسی کردار درست نہیں لگتا ۔مزے کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن کو جب حکومت ملتی ہے تو بطور اپوزیشن جن چیزوں کی وہ مخالفت کرتی رہی ہے یا جن چیزوں کو ناجائز اور ظلم سے تشبیہ دیتی رہی ہے وہ حکومت میں آ کر ان کی نہ صرف حمایت کرنے لگ جاتی ہے بلکہ ان کو یہ پھر جائز بھی مانتی ہے ۔ایسی صورت میں دونوں پوزیشنوں میں ان کے پاس دلائل موجود ہوتے ہیں ۔
2013 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو اگلے ہی سال عمران خان اور طاہرالقادری نے اسلام آباد میں دھرنا شروع کیا۔126 دنوں کے مذکورہ دھرنے کا مقصد ’’نیا پاکستان‘‘ مقصود تھا۔ نیا پاکستان تو بننے سے رہا لیکن جو حال انھوں نے پرانے پاکستان کا کیا وہ اب سب کے سامنے ہے ۔پھر 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی مرکز میں حکومت بنی تو جو کچھ عمران خان 2013 سے 2018 تک کرتے رہے وہی کام مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے رہنما بھی عمران خان کی حکومت میں کرتے رہے ۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں گو کہ ملک میں دہشتگردی کا راج رہا لیکن 2016 اور 2017 کے آخر تک بڑی حد تک دہشتگردی تھم چکی تھی ۔ پھر عمران خان وزیراعظم بنے تو دہشتگردی کے واقعات میں مزید کمی ہوئی اور اس کی وجہ پہلے سے جاری کارروائیاں تھیں لیکن اس دور میں ملکی معیشت کا جو حال ہوا اس کو آج بھی عوام بھگت رہے ہیں ۔ رہی سہی کسر پی ڈی ایم کی حکومت میں پوری ہوئی ۔
عمران خان کی حکومت میں نیب نے جو کردار ادا کیا وہ ملکی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے ۔لیکن نیب کا استعمال اس سے قبل بھی سیاستدانوں کے خلاف اسی طرح ہوتا رہا ہے ۔لیکن جو کردار بطور چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ادا کیا وہ شائد اپنی مثال آپ ہے ۔گزشتہ کسی بھی دور میں نیب چیئرمین کی جانب سے حکومت کے غیر قانونی او رغیر آئینی احکامات کو ماننے سے انکار کی مثال نہیں ملتی اور یہ کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں کیونکہ ہمارے ہاں یہ ایک تلخ حقیقت ہے ۔
اسی طرح عمران خان کی حکومت میں ہر قسم کی قانون سازی ہوتی رہی اور دبا کر ہوتی رہی ۔اس میں اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں اور موجودہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں بھی پی ٹی آئی حکومت کا بھر پور ساتھ دیتی رہی ہیں ۔ مسلم لیگ ن کی موجودہ اتحادی حکومت میں بھی ایسی قانون سازی ہوتی رہی ہے جس میں تحریک انصاف نے حکومت کا ساتھ دیا ہے لیکن ۔۔۔
لیکن تحریک انصاف کا اصل امتحان اب ہوگا۔ جب اکتوبر کے پہلے ہفتے میں وفاقی حکومت ایک بار پھر آئینی ترمیم لائے گی جس میں چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی عمر کو تین سال تک بڑھانے کی شق بھی شامل ہے ۔ان ترامیم میں سب سے اہم معاملہ چیف جسٹس کا ہے ۔وفاقی حکومت موجودہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کرنا چاہتی تھی لیکن چونکہ حکومت دو تہائی اکثریت سے محروم ہے اور ایسے میں آئینی ترمیم کی منظوری جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ عمران خان کی حکومت میں جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے بعد ہوئے معاملات بھلانے سے بھی بھولے نہیں جائیں گے۔
ہمیں آج بھی یاد ہے وہ 2019 میں وہ 16 دسمبر کی تاریخ تھی اور پیر کا دن تھا ۔مزے کی بات یہ ہے کہ جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دے کر عمران خان پچھتا رہے ہیں لیکن ان کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ کے جن جج صاحب نے تحریر کیا عمران خان آج ان کے چیف جسٹس بننے کی حمایت کر رہے ہیں ۔اس فیصلے سے قبل 28 نومبر کو سپریم کورٹ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ کو چھ ماہ کی مشروط توسیع دینے کا اعلان کیا تھا ۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کہ اگر حکومت چھ ماہ کے عرصے میں آرمی چیف(جنرل باجوہ) کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی نہ کر سکی تو جنرل باجوہ ریٹائر ہو جائیں گے اور نئے سینئر جنرل آرمی چیف بن جائیں گے ۔ اس قانون میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت پارلیمان کی بیشتر جماعتوں نے پی ٹی آئی حکومت کا ساتھ دیا تھا اور یوں جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں ’’قانونی‘‘ توسیع کردی گئی تھی ۔
حکومت نے چونکہ پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ موجودہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے گی اور پرامید تھی کہ باقی تمام جماعتیں ساتھ دیں گی اس لئے تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی سینئر قیادت بار بار مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ کا چکر لگاتی رہی تاکہ مذکورہ قانون سازی میں ان کو مشکلات کا سامنا نہ ہو ۔لیکن چونکہ حکومت بناتے وقت ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مولانا کو ناراض کیا تھا اس لئے وہ موقع کی تلاش میں تھے جیسے ہی ان کو موقع ملا انھوں نے اپنی اہمیت سے ان کی آنکھیں کھول دیں ۔
جنرل باجوہ کی توسیع کی قانون سازی کے سپریم کورٹ کے حکم کے وقت بلاول بھٹو اور خواجہ آصف کو پارٹی قائدین کی جانب سے ہدایت تھی کہ وہ ہر صورت ووٹ ڈالیں گے۔ انھوں نے نہ صرف اس معاملے میں ووٹ ڈالا بلکہ یہ کہہ کر اس کی حمایت کی کہ حالات ہی ایسے ہیں کہ انکار ملکی مفاد میں نہیں ہے ۔اب جب چیف جسٹس پاکستان کی تقرری کو آرمی چیف کی تقرری کے طرز پر کرنے کا معاملہ سامنے ہے تو اس میں پی ٹی آئی ،جے یو آئی اور دیگر وہ تمام جماعتیں بھی ووٹ ڈالیں گی جو بظاہر اب انکار کر رہی ہیں ۔ اب ان کے پاس انکار کیلئے ہزاروں دلائل ہیں لیکن ووٹ ڈالنے کے بعد ان کے پاس حمایت کے بھی ہزاروں دلائل ہوں گے ۔
جب تک ملک سے اپنے مفاد پر مبنی اس ڈرٹی پالیٹکس کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا او ملک و قوم کے بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کرکے اس کو حل نہیں کیا جائے گا تب تک اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ برسر اقتدار جماعتیں سیاست میں غیر سیاسی مداخلت کی نفی کرتی رہیں گی اور اپوزیشن جماعتیں اسی مداخلت کو آڑے ہاتھوں لیتی رہیں گی ۔
پیر, نومبر 11, 2024
بریکنگ نیوز
- خیبرپختونخوا کے مختلف علاقو میں تیز بارش اور ژالہ باری سے موسم سرد ہوگیا
- آئینی بنچ نہ ہونے تک کیا ہم غیرآئینی ہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ
- بلوچستان حکومت نے کوئٹہ دھماکے میں شہادتوں پر تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا
- چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کی عدم شرکت، پی سی بی کا سخت مؤقف اپنانے کا فیصلہ
- ملک بھر میں سموگ کا راج
- شمالی وزیرستان:پاک افغان بارڈر سے دہشتگردوں کی دراندازی کی کوشش ناکام ، 4 دہشتگرد ہلاک،2 زخمی
- زاہد خان نے عوامی نیشنل پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرلی
- شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی، 6 دہشتگرد ہلاک،6 زخمی