اسلام آباد سے مبارک علی کی تحریر: ۔
نوبل انعام یافتہ پاکستانی کارکن ملالہ یوسفزئی نے ایک بار پھر انسانی ہمدردی کی مثال قائم کی ہے۔ حالیہ دنوں میں غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں فلسطینی بچوں اور خاندانوں کی حالت زار دیکھتے ہوئے، ملالہ فنڈ کی جانب سے غزہ میں کام کرنے والی امدادی تنظیموں کے لیے ایک لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا ہے ۔
یہ اعلان قاہرہ میں فلسطینی مہاجرین سے ملاقات کے دوران کیا گیا، جہاں ملالہ نے انٹرنیشنل نیٹ ورک فار ایڈ، ریلیف اینڈ اسسٹنس (آئی این اے آر اے) جیسی تنظیموں کو گرانٹ دی۔ آئی این اے آر اے فلسطینی بچوں کو پناہ، طبی امداد، تعلیم اور نفسیاتی مدد فراہم کر رہی ہے ۔
ملالہ نے انسٹاگرام پر لکھا کہ وہاں ملنے والے ہر بچے نے جسمانی زخم، خاندان کے فرد کی شہادت یا گھر کی تباہی کی داستان سنائی۔ انہوں نے عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ غزہ کی ناکہ بندی ختم کریں، امداد کی ترسیل کے لیے چیک پوسٹس کھولیں اور مستقل جنگ بندی کا نفاذ کریں ۔
یہ اعلان ملالہ کی مسلسل جدوجہد کا حصہ ہے، جو ان کی زندگی کی تلخ یادوں سے جڑا ہوا ہے۔ ملالہ یوسفزئی 12 جولائی 1997 کو پاکستان کے قبائلی علاقے سوات میں پیدا ہوئیں۔ سوات، جو پہلے سے خوبصورت وادیوں اور تاریخی ورثے کے لیے مشہور تھا، 2000 کی دہائی میں شدت پسندوں کے قبضے کا شکار ہو گیا۔ طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی، سکولوں کو بموں سے اڑا دیا اور خواتین کو گھروں تک محدود کر دیا ۔
اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے ملالہ کے والد، ضیاء الدین یوسفزئی، ایک تعلیم یافتہ اور پرعزم استاد تھے۔ ضیاء الدین نے سوات میں غیرسرکاری سکول قائم کیا، جو لڑکیوں کی تعلیم کا مرکز بنا۔ وہ نہ صرف ملالہ کے پہلے استاد تھے بلکہ ان کی سب سے بڑی ترغیب بھی۔ ضیاء الدین کی کتاب "لیٹ ہر فلائی” ان کی بیٹی کی جدوجہد کی داستان بیان کرتی ہے ۔
انہوں نے بی بی سی اردو بلاگ پر ملالہ کو "گل مکئی” کے نام سے لکھنے کی ترغیب دی، جس سے ملالہ کی آواز دنیا تک پہنچی۔ ضیاء الدین کی لگن نے ملالہ کو تعلیم کی اہمیت سکھائی، جو بعد میں عالمی سطح پر ان کی مہم کا بنیاد بنی ۔
سوات کی اس تاریک وادی میں ملالہ کی جدوجہد نے شدت پسندوں کو چڑھا دیا۔ 9 اکتوبر 2012 کو، جب ملالہ صرف 15 سال کی تھیں، طالبان نے ان کے اسکول کی بس پر حملہ کیا۔ حملہ آوروں نے ملالہ کا نام لے کر ان پر گولیاں چلائیں، کیونکہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کی وکیل تھیں۔ گولی ان کے سر اور گردن میں لگی، اور وہ شدید زخمی حالت میں برطانیہ منتقل ہوئیں۔ یہ حملہ سوات کی خواتین اور بچوں پر طالبان کے مظالم کی ایک جھلک تھا، جہاں ہزاروں سکول تباہ ہو چکے تھے۔ ملالہ کی بہادری نے دنیا کو جھنجھوڑ دیا ۔
برطانیہ میں علاج کے بعد، انہوں نے نوبل امن انعام جیتا، جو انہیں سب سے کم عمر حاصل کرنے والی شخصیت بنیں۔ ملالہ فنڈ کی بنیاد رکھ کر انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اربوں روپے جمع کیے ۔
ملالہ کا غزہ کے لیے یہ اعلان ان کی ذاتی تکلیفوں سے جڑا ہے۔ جیسے سوات میں طالبان نے ان کی آواز دبانے کی کوشش کی، ویسے ہی غزہ میں بچے جنگ کی بھٹی میں جھلس رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، غزہ میں ہزاروں بچے یتیم ہو چکے، سکول تباہ ہو گئے، اور غذائی قلت نے ان کی صحت کو خطرے میں ڈال دیا۔ ملالہ کی امداد سے آئی این اے آر اے بچوں کو صاف پانی، طبی امداد اور تعلیمی سہولیات فراہم کر سکے گی ۔
یہ نہ صرف مالی مدد ہے بلکہ ایک علامتی پیغام ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہر انسان کا فرض ہے۔ ملالہ کی جدوجہد سوات سے غزہ تک پھیلی ہوئی ہے، جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ تعلیم اور امن ہی انسانی معاشرے کی بنیاد ہیں۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ ملالہ کی اس مثال سے سبق لے اور فلسطینی بچوں کی آواز بنے ۔