بھارتی ریاست آسام میں ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جو نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ قانون کی بالادستی، اقلیتوں کے تحفظ اور ریاستی اداروں کی شفافیت پر بھی سنگین سوالات کھڑے کر رہا ہے۔ ان ہلاکتوں کا نشانہ زیادہ تر مسلمان اور دیگر اقلیتی برادریاں بن رہی ہیں، جنہیں پولیس کی جانب سے جعلی مقابلوں میں مارا جا رہا ہے۔
ہندوتوا واچ جو ایک آزاد تحقیقاتی ادارہ ہے اور بھارت میں ہندوتوا نظریے کے تحت ہونے والے تشدد کی نگرانی کرتا ہے، کی رپورٹ کے مطابق آسام پولیس ان ماورائے عدالت قتل میں براہ راست ملوث پائی گئی ہے۔ یہ ہلاکتیں محض اتفاقی واقعات نہیں بلکہ ایک منظم رجحان کا حصہ ہیں جو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے دور میں شدت اختیار کر چکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مئی 2021 سے دسمبر 2021 کے درمیان کم از کم 31 افراد کو آسام پولیس نے گولی مار کر ہلاک کیا۔ ان میں سے اکثر کو دوران حراست یا نام نہاد پولیس مقابلوں میں نشانہ بنایا گیا۔ نومبر 2021 میں ایک طالبعلم رہنما انیمیش بھویان کے قتل کے بعد گرفتار ہونے والے افراد میں سے ایک، نیرج داس، یکم دسمبر کی رات پولیس حراست میں پراسرار طور پر ہلاک ہو گیا۔ ہندوتوا واچ کا کہنا ہے کہ نیرج داس کی موت کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، بلکہ اس سے قبل بھی درجنوں افراد پولیس کے ہاتھوں اسی طرز پر مارے جا چکے تھے۔
ان واقعات نے انسانی حقوق کی تنظیموں، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی اداروں کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماورائے عدالت قتل نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہے بلکہ یہ پولیس کو بے لگام طاقت فراہم کرتا ہے، جس سے عوام کا اعتماد ریاستی اداروں پر متزلزل ہوتا ہے۔
مودی حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ ایسی پالیسیوں کی پشت پناہی کر رہی ہے جن کا مقصد اقلیتوں کو نشانہ بنانا ہے، بالخصوص مسلمان برادری کو۔ مختلف حلقوں کی جانب سے ان پالیسیوں پر فوری نظرثانی اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے تاکہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے اور قانون کی حکمرانی بحال ہو۔
یہ سلسلہ اگر یوں ہی جاری رہا تو نہ صرف بھارت کا جمہوری تشخص خطرے میں پڑ سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔