اسلام آباد( ارشد اقبال) سیکیورٹی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کا خط آرمی چیف کو ابھی تک موصول نہیں ہوا،سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ سزا یافتہ مجرم کی جانب سے کوئی خط ملا نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کو ایسے کسی بھی خط میں کوئی دلچسپی ہے۔ پی ٹی آئی نے خط کے نام پر ایک اور ناکام ڈرامہ کرنے کی کوشش کی، اسٹیبلشمنٹ پہلے ہی یہ بات واضح کر چکی ہے کہ پی ٹی آئی کو کسی بھی معاملے پر بات کرنی ہے تو سیاستدانوں سے کرے۔گزشتہ روز یہ خبر سامنے آئی تھی کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو پالیسیوں پر نظرثانی کیلئے خط لکھا ۔
دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ نہ تو انہوں نے یہ خط پڑھا ہے اور نہ ہی ان کو یہ خط دکھایا گیا ہے ؛البتہ عمران خان نے خود ان کو اس خط ے مندرجات زبانی بتا دیئے تھے ، بیرسٹر گوہر نے یہ بھی کہا کہ اگر اس خط کا ردعمل آگیا تو وہ خیر مقدم کریں گے ۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس خط کے بارے میں عمران خان کے وکیل فیصل چودھری کو تو علم تھا لیکن ان کی پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کو اس خط کے بارے میں سرے سے علم ہی نہیں تھا ۔بانی پی ٹی آئی آج بھی اپنے ذاتی وکیل کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جبکہ پارٹی کے چیئرمین کی ان کی نظر میں وہ اہمیت نہیں جو ہونی چاہیے ۔
بانی پی ٹی آئی نے اس سے قبل چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کے نام بھی طویل خط لکھا تھا لیکن اس کا ردعمل بھی ابھی تک نہیں آیا ، ویسے 345 سے زائد صفحات پر مشتمل خط میں انہوں نے کیا لکھا ہوگا ؟ وہی پرانے مطالبات ،وہی اپنی مرضی کے خلاف فیصلوں پر بحث، وہی 8 فروری کے انتخابات میں دھاندلی ،مزے کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی جن جن حلقوں سے جیت گئی وہاں شادیانے بجائے گئے اور جہاں ہارگئی وہاں دھاندلی دھاندلی کا کھیل شروع کیا گیا ، یہ عجیب منطق ہے ؟اس کے علاوہ تو ان کے پاس نیا کچھ بھی نہیں ، اور آیا چیف جسٹس کے پاس ان کے اتنے طویل خط کو پڑھنے کی فرصت بھی ہوگی کہ نہیں ، خط لکھنا ہی تھا تو دو چار صفحات پر مشتمل لکھ دیتے ، کم از کم پڑھنے کے قابل تو ہوتا۔
چیف جسٹس کی جانب سے خط کا جواب نہ آیا تو عمران خان نے آرمی چیف کو خط لکھ ڈالا، ممکن ہے سپریم کورٹ کی جانب سے اس خط پر ردعمل یا کوئی رسپانس بھی آجائے لیکن ایسا محسوس نہیں ہو رہا ، کیونکہ خان صاحب کے پاس نیا کچھ بھی نہیں ، یہ کسی نہ کسی پر الزام لگائیں گے ، ان کو صرف اپنا آپ آب زم زم سے دھلا ہوا محسوس ہوتا ہے باقی کوئی بھی سیاستدان،جج یا کسی اور ادارے کا سربراہ، کوئی بھی ان کو بھاتا نہیں ، ان کو صرف وہی بھاتا ہے جو ان کی تعریف کرے اور ان کی ہاں میں ہاں اور ناں میں ناں ملائے ،ان کی نظر میں اس کے علاوہ سب کرپٹ اور نااہل ۔
آرمی چیف کو لکھے مبینہ خط کے جواب میں خان صاحب کو اسٹیبلشمنٹ نے زبردست جواب یہ بھی دیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پہلے ہی یہ بات واضح کر چکی ہے کہ پی ٹی آئی کو کسی بھی معاملے پر بات کرنی ہے تو سیاستدانوں سے کرے۔
اب جب اسٹیبلشمنٹ ان کے کسی چال میں نہیں آنے والی، اور سیاستدانوں کے ساتھ یہ مذاکرات ختم کر چکے ہیں ، ان کے خطوط پر پر کوئی جواب دینے کو تیا ر نہیں تو اب ان کے پاس آخری راستہ کونسا بچ گیا ہے اور اب کریں گے تو کیا کرینگے ؟
اسٹیبلشمنٹ نے تو جواب دے دیا لیکن سپریم کورٹ اور چیف جسٹس نے جواب بھی نہیں دیا ،جواب تو دینا چاہیے تھا لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں ، ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ لیکن ایک بات واضح ہو چکی ہے کہ وہ جو کہتے نہیں تھکتے تھے کہ کسی کو نہیں چھوڑونگا ،سب کو حساب دینا پڑے گا ، وہ اب خود ایک ایک چیز کا حساب دے، یہ اور کچھ نہیں ،مکافات عمل ہے ۔خان صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ اب ڈونلڈ ٹرمپ باقی ہیں ، اب ان کو بھی خط لکھ دیں ۔