آفاقیات
پشاور سے رشید آفاق کی خصوصی تحریر: ۔
دبئی میں ایک انڈین دوست ایک دن مجھے بتا رہا تھا کہ ایک عرب بادشاہ نے وائٹ ہاؤس فون کر کے پوچھا کہ جارج بُش کہاں ہے؟ دوسری طرف سے بتایا گیا کہ جارج بُش ابھی نہیں ہیں، اب تو کلنٹن آئے ہوئے ہیں ۔ تو بادشاہ سلامت نے کہا کہ میری اسی نمبر پر جارج بُش سے بات ہوئی تھی،مطلب بادشاہ سلامت کو پتہ ہی نہیں تھا کہ امریکہ میں الیکشن ہوا ہے اور صدر تبدیل ہو گئے ہیں،کچھ اسی طرح آدم خان نامی بندے کے ساتھ بھی ہوا ۔
اس کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اب اختریزماحول، حیاتیاتی تبدیلی اور گنڈاپوری رجیم کی جگہ نئے آئی جی صاحب خیبرپختونخواٰ میں تشریف لا چکے ہیں جو بہت ہی دھیمی انداز میں پولیس مورال کو اوپر لے جانے میں کامیابیوں کی سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں،پولیس فورس میں بَددلی ختم ہو رہی ہے، نئے جذبات کے ساتھ میدانِ عمل میں دوبارہ سر ہتھیلیوں پر رکھ کر حاضریاں لگائی جا رہی ہیں،اس کے بعد ایک دبنگ اور نمود و نمائش سے بے خبر ایس ایس پی آپریشنز بھی اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ ایک ایسا سمارٹ سی سی پی او پشاور منتقل ہوا ہے جو حقیقت میں پشاور کو تبدیل کر کے رکھے گا،آدم خان بے چارے کو معلوم ہی نہ تھا کہ قاسمی دور گزر چکا ہے، تھانوں کی لاٹریاں لگانے کا دور ختم ہو چکا ہے،چائے پانی کے وقت کو خیرباد کہاگیا ہے ۔
پھر ان حالات میں باقی چھوٹے موٹے واردات تو چھوڑو، پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر مصباح الدین کے گھر پر فائرنگ کر کے اگلے دن ویڈیو پیغام جاری کرنا کہ تیار ہو جاؤ،اس دفعہ تمہیں مار کر رہوں گا،پھر ایک گودام میں پیٹرول چھڑک کر فائرنگ کرنا، آگ لگانا، پھر دیدہ دلیری کی انتہا یہ کہ اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کر دینا اور سی سی پی او کے لیے سوشل میڈیا پر پیغام جاری کرنا،آدم خان نے شاید یہاں کا ماحول افغانستان سمجھ رکھا تھا یا پھر اپنی جنت، لیکن بےچارے کو معلوم نہیں تھا کہ جنت سے بھی آدم کو نکالا گیا تھا،بہرحال وہ پولیس کے ہاتھوں انجام کو پہنچا، جس سے یہاں کے پرامن شہریوں کو تحفظ کا احساس ہوا ۔
اس دن ہمارے ایک کیمرہ مین نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں ایک فاتحہ خوانی کے لیے گیا تھا جہاں ایک جوئے خانہ چلانے والے کا بھائی بھی آیا تھا تو اس نے بتایا کہ جب سے نیا سی سی پی او آیا ہے ہمارا دھندہ ہی بند کرایا گیا ہے ۔ ڈر کے مارے جوئے کھیلنا تو درکنار ہم آپس میں لڈو تک نہیں کھیل سکتے ۔ یہی وہ ڈر اور پولیس کا رعب ہے جو قائم ہونا چاہیے ۔ شہر کے نامی گرامی اشتہاری بھی جیلوں میں جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں،اس سلسلے میں کئی نے تو پولیس کے ساتھ رابطے بھی کیے ہیں کہ ہم اپنی دشمنیاں ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس عمل میں چند ایس پی لیول کے آفیسرز ملوث ہیں جو اس اچھے کام کو سرانجام دینا نہیں چاہتے،نئے سی سی پی او صاحب کو اس بارے توجہ دینی چاہیے،
اس کے علاوہ بھتہ خوروں کا اکثر واسطہ امیر کبیر لوگوں کے ساتھ ہی پڑتا ہے، لیکن شہر میں سنیچروں نے جو اودھم مچایا ہے اُس سے غریب اور متوسط طبقہ بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے،بعض علاقوں میں تو سنیچرز ایسا ڈانس کرتے پھرتے ہیں جیسا پاک بھارت جنگ میں پاکستانی جہاز نئی دہلی کی حدود میں فضائی کرتب دکھا رہے تھے۔،میرے خیال میں ہاف فرائی اور فل فرائی کو چھوڑ کر مکمل آملیٹ بنانے کا وقت آ چکا ہے، کیونکہ عدالتیں جس انداز میں انصاف فراہم کر رہی ہیں عام آدمی اس سے مایوس ہو چکا ہے ۔ شہر کے چند علاقوں کو تو سنیچروں نے جیسے یرغمال بنا رکھا ہے،اگر پولیس واہ کینٹ میں جا کر اتنی دبنگ کارروائی کر سکتی ہے تو پھر اپنے شہر میں کیوں نہ ایک آپریشن ضربِ عضب کی شروعات کی جائیں ،
اس کے علاوہ آئی جی صاحب سے درخواست ہے کہ صوبے کے دور دراز اضلاع کی بھی خبر گیری لی جاتی رہے،چار سال پہلے ٹل نامی شہر میں ایک کام کے سلسلے میں ایک ایس ایچ او سے واسطہ پڑا، پھر ایک ہفتہ پہلے جب کال کی تو وہی ایس ایچ او صاحب اسی تھانے میں اب بھی براجما ن تھا،بات کر کے پوچھا کہ آپ وہی فضل خان صاحب ہیں جن سے چار سال پہلے بات کی تھی؟ تو موصوف نے اقرار کیا کہ جی بالکل، اللہ کے فضل سے وہی فضل خان ہوں،مطلب ایک ایس ایچ او چار سالوں سے ایک ہی تھانے پر قابض ہے،اسی طرح سابقہ قبائلی اضلاع میں بھی پولیس سسٹم کو اسی خاصہ دارانہ انداز میں چلایا جا رہا ہے ۔
گزشتہ دنوں ایک کوریج کے سلسلے میں نشتر ہال جانا ہوا،ضلع مہمند کے ایک ملک صاحب کے ساتھ ایک پولیس والا آیا تھا جس نے وردی (پینٹ شَرٹ) کے ساتھ چپل پہنے تھے،مجھے لگا کہ شاید یہی ڈیوٹی ہے اور وضو کرنے کے لیے چپل پہن کر نکلا ہوگا، لیکن معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ موصوف گھر سے چپل پہن کر آیا ہے ۔
باقی، ہماری پولیس نے بہت بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں اور دے رہی ہیں ،بس ان چھوٹی چھوٹی غلطیوں کا بھی احساس ہونا چاہیے تاکہ بہادروں اور جانثاروں کی اس فورس پر کسی کو بھی کسی بھی لحاظ سے انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے،امید ہے کہ نئے سی سی پی او صاحب ڈاکٹر سے سرجن بن کر سنیچروں کے خلاف آپریشن کا ایسا آغاز کریں گے جس کے بعد نہ مَرَض باقی رہے نہ مریض ۔
باقی آپریشن کہاں کرنا ہے؟آپریشن تھیٹرکہاں ہوگا؟ٹانکے کہاں لگانے ہیں؟سی سی پی او صاحب سے بہتر کون جانتاہوگا؟
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو،