Close Menu
اخبارِخیبرپشاور
    مفید لنکس
    • پښتو خبرونه
    • انگریزی خبریں
    • ہم سے رابطہ کریں
    Facebook X (Twitter) Instagram
    منگل, ستمبر 2, 2025
    • ہم سے رابطہ کریں
    بریکنگ نیوز
    • کسی کو عدالت کی بےحرمتی کی اجازت نہیں دیں گے، چیف جسٹس یحیٰ آفریدی
    • ٹیرف کے اثرات، بھارتی روپیہ کم ترین سطح پر
    • پشاور میں افغان مہاجرین کا وطن واپسی پر تحفظات، ڈیڈ لائن میں توسیع کا مطالبہ
    • خیبر ٹی وی پشاور کا تفریحی و نصیحت آموز ڈرامہ ’’گارڈ روم‘‘ ناظرین کی توجہ کا مرکز
    • طورخم سرحدی گزرگاہ سے افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا عمل جاری
    • چین کا اقتصادی ترقی سمیت تمام شعبوں میں پاکستان کی مدد جاری رکھنے کا اعلان
    • سوڈان میں تباہ کن بارشوں کے بعد لینڈ سلائیڈنگ، گاؤں زمیں بوس، ایک ہزار افراد جاں بحق
    • پاراچنار میں نرسنگ کالج بند — کیا پسماندہ علاقے تعلیم کے حق سے محروم رہیں گے؟ تحریر: ڈاکٹر حمیرا عنبرین
    Facebook X (Twitter) RSS
    اخبارِخیبرپشاوراخبارِخیبرپشاور
    پښتو خبرونه انگریزی خبریں
    • صفحہ اول
    • اہم خبریں
    • قومی خبریں
    • بلوچستان
    • خیبرپختونخواہ
    • شوبز
    • کھیل
    • دلچسپ و عجیب
    • بلاگ
    اخبارِخیبرپشاور
    آپ پر ہیں:Home » پاراچنار میں نرسنگ کالج بند — کیا پسماندہ علاقے تعلیم کے حق سے محروم رہیں گے؟ تحریر: ڈاکٹر حمیرا عنبرین
    اہم خبریں

    پاراچنار میں نرسنگ کالج بند — کیا پسماندہ علاقے تعلیم کے حق سے محروم رہیں گے؟ تحریر: ڈاکٹر حمیرا عنبرین

    ستمبر 2, 2025کوئی تبصرہ نہیں ہے۔6 Mins Read
    Facebook Twitter Email
    Share
    Facebook Twitter Email

    پاراچنار میں نرسنگ کالج کی بندش محض ایک تعلیمی فیصلہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی مایوسی، پسماندہ خطے سے وابستہ امیدوں کا قتل، اور ریاستی ناانصافی کا مظہر ہے۔ خیبر میڈیکل یونیورسٹی (KMU) پاراچنار کے بی ایس نرسنگ پروگرام کو بغیر کسی دورے، بغیر کسی انکوائری اور بغیر کسی وضاحت کے بند کر دینا پاکستان نرسنگ اینڈ مڈوائفری کونسل (PNMC) کی طرف سے ایک غیر ذمہ دارانہ اور ناقابل قبول اقدام تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ادارہ جاتی طاقت کو ایک کمزور علاقے پر استعمال کر کے، سوال کیے بغیر، اسے تعلیمی نقشے سے مٹا دیا گیا ہو۔

    یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا جب پاراچنار کے سینکڑوں گھرانوں کی نظریں اسی ادارے پر تھیں۔ ہر سال 50 نوجوان، جن میں نصف سے زیادہ وہ لڑکیاں شامل تھیں جنہیں کسی اور شہر جانے کی اجازت یا وسائل حاصل نہ تھے، اس پروگرام میں داخل ہوتے۔ ان کے لیے یہ ادارہ صرف تعلیم کا ذریعہ نہیں بلکہ خود مختاری، عزت اور صحت کی خدمت کا وسیلہ تھا۔ ایسے علاقے میں جہاں خواتین کے لیے تعلیم تک رسائی ہمیشہ سے ایک جدوجہد رہی ہو، وہاں مقامی نرسنگ ادارے کی موجودگی نہایت اہم تھی۔ یہ وہ ادارہ تھا جو نہ صرف تعلیمی خدمات فراہم کرتا تھا بلکہ مقامی سطح پر صحت عامہ کی بنیاد کو مستحکم کرتا تھا۔

    ریاستی اداروں کا فریضہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ پسماندہ اور تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں تعلیم کو بڑھاوا دیں، ان کے لیے اضافی بجٹ مختص کریں، سہولیات فراہم کریں، اور نوجوانوں کے لیے ترقی کے دروازے کھولیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جو دہائیوں سے صرف ریاستی اعلانات اور کاغذی وعدوں کے محتاج رہے ہیں۔ ان علاقوں کو ترقی کے قومی دھارے میں لانے کا مطلب صرف سڑکیں یا عمارتیں تعمیر کرنا نہیں، بلکہ تعلیمی ادارے کھولنا، وسائل فراہم کرنا، اور مقامی نوجوانوں کو بااختیار بنانا ہے۔ لیکن اس کے برعکس، جب کسی علاقے کو بنا کسی معائنہ، بنا کسی تکنیکی رپورٹ یا وضاحت کے صرف بند کر دیا جائے، تو یہ غیر جانبداری نہیں بلکہ ظلم ہے۔

    PNMC کا کام صرف ضابطہ سازی نہیں، بلکہ تعلیم کے فروغ، صحت کی بہتری، اور عوامی مفاد کا تحفظ بھی ہے۔ پاکستان نرسنگ اینڈ مڈوائفری کونسل (ترمیمی) ایکٹ 2023 کے مطابق، کوئی بھی تعلیمی ادارہ بند کرنے سے قبل معائنہ، رپورٹ، اور فریقین سے مشاورت لازمی ہے۔ لیکن پاراچنار کے معاملے میں ان تمام اصولوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ نہ کوئی ٹیم بھیجی گئی، نہ کوئی ڈیٹا اکٹھا کیا گیا، اور نہ ہی طلبہ، اساتذہ یا مقامی برادری سے رائے لی گئی۔ یہ رویہ ایک افسوسناک مثال ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے کس طرح غیر فعال علاقوں کے ساتھ سلوک کرتے ہیں، گویا وہ ریاست کا حصہ ہی نہیں۔

    یہ فیصلہ نہ صرف مقامی لڑکیوں کی تعلیم کا خاتمہ ہے بلکہ مقامی صحت کے نظام کو بھی مفلوج کرنے کا عمل ہے۔ پاراچنار جیسے علاقے میں جہاں سرکاری ہسپتال محدود ہیں، نجی سہولیات ناقابلِ برداشت ہیں، اور روایتی طبی سہولیات غیر محفوظ ہیں، وہاں مقامی طور پر تربیت یافتہ نرسز معاشرتی بقا کے لیے لازم ہیں۔ یہ نرسز نہ صرف علاج فراہم کرتی تھیں بلکہ گھروں، دیہی مراکز، اور ایمرجنسی حالات میں انسانی جانیں بچاتی تھیں۔ ان کی بندش گویا اس علاقے کے صحت کے بنیادی ڈھانچے کو توڑنے کے مترادف ہے۔

    یہ عمل نہ صرف انسانی بنیادوں پر ناقابل قبول ہے بلکہ آئینی اور بین الاقوامی وعدوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کا آئین، آرٹیکل 25-A کے تحت ہر فرد کو تعلیم کا حق دیتا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) — جن میں تعلیم (گول 4)، صحت (گول 3) اور صنفی برابری (گول 5) شامل ہیں — ان تمام وعدوں کی روشنی میں یہ فیصلہ ایک پسماندہ اور کمزور طبقے کے ساتھ ریاستی بے وفائی ہے۔ اگر تعلیم کی رسائی آئینی اور عالمی ذمہ داری ہے، تو کیا یہ صرف شہری علاقوں میں لاگو ہوتی ہے؟ یا پسماندہ علاقوں کے لیے صرف وعدے رہ جاتے ہیں؟

    کیا پاراچنار کی بیٹیوں کا خواب اس لیے کچل دیا گیا کہ وہ دور دراز علاقے میں پیدا ہوئیں؟ کیا ان کے لیے تعلیم کا حق صرف کاغذوں تک محدود ہے؟ ایک ایسے علاقے میں جہاں دہشت گردی، غربت، اور نظراندازی نے نسلوں کو پیچھے دھکیلا، وہاں کی بچیوں کا یونیورسٹی جانا، نرسنگ کی تعلیم حاصل کرنا، اور اپنے معاشرے کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا، کسی انقلاب سے کم نہیں تھا۔ اس کوشش کو بغیر کسی ثبوت، بغیر کسی سنوائی، یوں مٹا دینا — یہ نہ ضمیر کو منظور ہونا چاہیے، نہ قانون کو، اور نہ ہی قوم کے اجتماعی شعور کو۔

    ریاست کو اب فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ PNMC کو چاہیے کہ وہ نہ صرف پاراچنار بلکہ تمام متاثرہ کیمپسز کے لیے آزادانہ، غیر جانب دار اور شفاف انسپیکشن کا آغاز کرے۔ اگر واقعی تعلیمی معیار میں کمی ہے، تو ادارے کو بہتری کے لیے ایک ٹائم لائن دی جائے، تربیتی مدد فراہم کی جائے، اور بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ خامیاں ختم کرنے کے لیے ادارے بند کرنا ایسا ہی ہے جیسے بیمار کا علاج کرنے کے بجائے اسے گھر سے نکال دینا۔

    ساتھ ہی وفاقی حکومت پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ پسماندہ اور تنازعہ زدہ علاقوں کے تعلیمی اداروں کے لیے خصوصی فنڈز، اضافی بجٹ، اور ترقیاتی منصوبے مختص کرے۔ انہیں مالیاتی اور تعلیمی پالیسی میں ترجیح دی جائے تاکہ تعلیمی مساوات ایک خواب نہیں بلکہ حقیقت بنے۔ جو علاقے دہائیوں تک بارود اور خون کا میدان بنے رہے، وہاں اب صرف قلم اور تعلیم کو بولنے دیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اصلاحی حکمت عملی اپنائے، نہ کہ خاموش انتقامی فیصلے۔

    عوامی نمائندگان، سول سوسائٹی، اور صحافتی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ ان علاقوں کی آواز بنیں، ان کی محرومی کو اجاگر کریں، اور تعلیم کی روشنی کو بجھنے سے بچائیں۔ یہ ایک ادارے کی بات نہیں — یہ ایک نسل کے خوابوں، ایک خطے کی شناخت، اور ایک قوم کے مستقبل کی بات ہے۔

    کیونکہ اگر پاراچنار کا کالج خاموشی سے بند کیا جا سکتا ہے، تو کل کسی اور پسماندہ علاقے میں بھی یہی ہو سکتا ہے۔ آج اگر ہم نے آواز نہ اٹھائی، تو کل یہ خاموشی ہمارا بھی مقدر ہو سکتی ہے۔

    اور آخر میں سوال صرف یہی رہ جاتا ہے: کیا پاکستان سب کے لیے ہے — یا صرف اُن کے لیے جو دارالحکومت کے قریب رہتے ہیں؟

    Share. Facebook Twitter Email
    Previous Articleبنوں: ایف سی لائن پر دہشتگردوں کا خودکش حملہ ناکام، 5 دہشتگرد ہلاک،ایک اہلکار شہید، ایس ایچ او سمیت 7 زخمی
    Next Article سوڈان میں تباہ کن بارشوں کے بعد لینڈ سلائیڈنگ، گاؤں زمیں بوس، ایک ہزار افراد جاں بحق
    Web Desk

    Related Posts

    کسی کو عدالت کی بےحرمتی کی اجازت نہیں دیں گے، چیف جسٹس یحیٰ آفریدی

    ستمبر 2, 2025

    طورخم سرحدی گزرگاہ سے افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا عمل جاری

    ستمبر 2, 2025

    چین کا اقتصادی ترقی سمیت تمام شعبوں میں پاکستان کی مدد جاری رکھنے کا اعلان

    ستمبر 2, 2025
    Leave A Reply Cancel Reply

    Khyber News YouTube Channel
    khybernews streaming
    فولو کریں
    • Facebook
    • Twitter
    • YouTube
    مقبول خبریں

    کسی کو عدالت کی بےحرمتی کی اجازت نہیں دیں گے، چیف جسٹس یحیٰ آفریدی

    ستمبر 2, 2025

    ٹیرف کے اثرات، بھارتی روپیہ کم ترین سطح پر

    ستمبر 2, 2025

    پشاور میں افغان مہاجرین کا وطن واپسی پر تحفظات، ڈیڈ لائن میں توسیع کا مطالبہ

    ستمبر 2, 2025

    خیبر ٹی وی پشاور کا تفریحی و نصیحت آموز ڈرامہ ’’گارڈ روم‘‘ ناظرین کی توجہ کا مرکز

    ستمبر 2, 2025

    طورخم سرحدی گزرگاہ سے افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا عمل جاری

    ستمبر 2, 2025
    Facebook X (Twitter) Instagram
    تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2025 اخبار خیبر (خیبر نیٹ ورک)

    Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.