پاکستان میں گداگری ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جو نہ صرف شہری علاقوں بلکہ دیہاتوں، گلیوں اور بازاروں تک پھیل چکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ فقیری کو ایک آسان ذریعہ معاش سمجھتے ہیں، اور یہ مسئلہ ملک کی معیشت، سماجی ڈھانچے اور اخلاقی اقدار پر سنگین اثرات مرتب کر رہا ہے۔
پاکستان میں روزانہ 38 ملین افراد گداگری کرتے ہیں، جو نہ صرف اپنی ضروریات کے لیے بلکہ اکثر اپنے اور اپنے خاندان کے لیے گزارا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں گداگری کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جہاں گداگر روزانہ ہزاروں روپے جمع کرتے ہیں۔ کراچی میں اوسطاً گداگر 2,000 روپے، لاہور میں 1,400 روپے اور اسلام آباد میں 950 روپے جمع کرتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں گداگری کے ذریعے یومیہ 32 ارب روپے اکٹھے کیے جاتے ہیں، جو کہ سالانہ 117 کھرب روپے (تقریباً 42 ارب ڈالر) بنتے ہیں۔ یہ رقم پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار (GDP) کا تقریباً 12 فیصد ہے۔
گداگری کے مسئلے کی وجوہات میں بے روزگاری، تعلیمی اداروں کی کمی، غربت اور بعض اوقات مقامی لوگوں کے لیے ایک سستی مدد کا ذریعہ شامل ہیں۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں سے مدد حاصل کرنے کے بجائے، خود گداگری کرنا آسان ہے، خاص طور پر جب یہ کام انہیں فوری طور پر مالی فوائد فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، بچے اور بزرگ افراد بھی اس کام میں ملوث ہیں کیونکہ وہ اپنی جسمانی حالت یا معذوری کی وجہ سے دوسرے کام نہیں کر سکتے۔
گداگری کے مضر اثرات اور اس کا معاشرتی اثر
گداگری نہ صرف معیشت پر منفی اثرات ڈال رہی ہے بلکہ یہ معاشرتی طور پر بھی ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اگرچہ لوگوں کی مدد کرنا ایک فطری عمل ہے، مگر جب گداگری ایک منظم اور کاروباری شکل اختیار کر لیتی ہے، تو اس کے سماجی اثرات زیادہ ہوتے ہیں۔ لوگوں کی طرف سے یہ سوچنا کہ وہ گداگروں سے نمٹنے کے بجائے انہیں مالی مدد فراہم کریں، ایک خطرناک رجحان ہے کیونکہ یہ گداگری کو مزید فروغ دیتا ہے۔
بیرون ملک گداگری
پاکستانی گداگر اب بیرون ملک بھی گداگری کرنے جا رہے ہیں، جس سے ملک کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ جولائی میں حکومت نے ان پاکستانی گداگروں کے پاسپورٹ بلاک کرنے کا فیصلہ کیا جنہوں نے سعودی عرب، ایران اور عراق جیسے ممالک میں گداگری کی۔ اس عمل کو کچھ افراد نے مذہبی مقامات پر عبادت کرنے کے لیے حج یا زیارت کے بہانے استعمال کیا۔ حکومت کے اس اقدام کا مقصد پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ کو بہتر بنانا ہے اور گداگری کے ذریعے ملک کی بدنامی سے بچنا ہے۔
گداگری کے خاتمے کے اقدامات
پاکستان میں گداگری کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مختلف اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، حکومت کو تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے چاہیے تاکہ افراد گداگری کے بجائے باعزت روزگار اختیار کریں۔ اس کے علاوہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس مسئلے پر سختی سے نظر رکھنی ہوگی تاکہ غیر قانونی طور پر گداگری کرنے والوں کو پکڑا جا سکے اور ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔
گداگری کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟
تعلیمی مواقع کا فروغ: گداگری کے خاتمے کے لیے سب سے ضروری ہے کہ حکومت تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھائے اور لوگوں کو ہنر مند بنانے کے لیے تربیتی پروگرامز شروع کرے۔
روزگار کے مواقع فراہم کرنا: بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے حکومت کو چھوٹے کاروباروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور نئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے۔
قانونی اقدامات: گداگری کے خلاف سخت قوانین بنانا اور ان پر عملدرآمد کرنا ضروری ہے تاکہ یہ مسئلہ ملک کے لیے مزید پیچیدہ نہ ہو۔
گداگری ایک سنگین معاشرتی مسئلہ ہے جسے حل کرنے کے لیے حکومت، شہری اور ادارے مل کر کام کریں گے۔ اگر ہم سب اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور گداگری کو فروغ دینے کی بجائے تعلیم اور روزگار کے مواقع پر توجہ مرکوز کریں، تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔