کچھ دن پہلے پشتون بونیری کے نام پر ایک صارف نے فیس بک و دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر اسلام و قرآن کے متلعق گستاخانہ الفاظ استعمال کئے تھے۔ جس کے بعد انہیں شدید غصے اور تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے باوجود بھی یہ سلسلہ بند نہ ہوا اور وہ مسلسل گستاخانہ مواد شئیر کرتا رہا۔
پشتون بونیری کے خلاف عام صارفین نے بھی محاذ کھول لیا اور سوشل میڈیا پر ان کی گرفتاری اور ان کو سزا دینے کے لئے مہم شروع کردی۔ سوشل میڈیا صارفین اگر ایک طرف ان کے خلاف غم و غصے سے بھرے پوسٹ کررہے ہیں تو دوسری طرف یہ مہم بھی چلارہے ہیں کہ حکومت پشتون بونیری کے خلاف کارروائی کرے اور ان کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ کئی صارفین نے ان کے فیس بک اکاؤنٹ کو بھی رپورٹ کیا ہے اور بار بار ایف آئی اے سے بھی مطالبہ کررہے ہیں کہ اس کی آئی ڈی بلاک کردی جائے۔
سوشل میڈیا پر جاری تیز و گرم بحث کے علاوہ پشتون بونیری کیخلاف خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں مظاہرے بھی ہوئے۔ جس میں ان کیخلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ آج نماز جمعے کے موقع پر بھی اکثر مساجد میں ان کے گستاخانہ الفاظ کی سخت مذمت کی گئی۔سوشل میڈیا پر کچھ صارفین اس بات پر بھی زور دے رہے ہیں کہ پشتون بونیری کو نظر انداز کیا جائے اور اس کی طرف سے کئے گئے پوسٹ و دیگر ویڈیو بیانات شئیر نہ کریں کیونکہ اس سے مزید گستاخی ہوتی ہے۔ایک صارف نے لکھا ہے کہ سب دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ جو گستاخانہ الفاظ پشتون بونیری نے استعمال کئے ہیں اس الفاظ کی تصویریں ڈیلیٹ کردیں۔ہر شخص اسے پڑھ رہا ہے اور یہ نازیبا الفاظ بہت تکلیف دیتے ہیں اور ہم بھی اس کے ساتھ شریک ہورہے ہیں۔ برائے مہربانی گستاخانہ مواد کے سکرین شاٹ فیس بک سے ہٹا دے اور گستاخ رسول کو پکڑنے اور سزا دینے میں حکومت کا ساتھ دے۔
پاکستان میں درجنوں واقعات کے علاوہ اگر صرف خیبر پختونخوا کی بات کی جائے تو توہینِ مذہب کے معاملے پر لوگوں کی برداشت ختم ہو جاتی ہے اور وہ خود قانون ہاتھ میں لیکر فیصلہ کرتے ہیں۔
اپریل 2017 میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں صحافت کے طالب علم مشال خان پر توہینِ مذہب کا الزام لگا کر درجنوں ساتھی انسانوں نے تشدد کر کے بے رحمی سے اسے موت کے حوالے کر دیا تھا۔
29 مارچ 2022 کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے انجم آباد میں توہین مذہب کے مبینہ الزام پر مدرسہ جامعہ اسلامیہ فلاح البنات کی تین طالبات رضیہ حنیفہ، عائشہ نعمان اور عمرہ امان نے 18 سالہ خاتون ٹیچر کو گلے پر چھریاں پھیر کر ذبح کر دیا تھا۔ بعد میں استانی کو قتل کرنے والی دو طالبات کو سزائے موت بھی سنائی گئی۔
اسی طرح 7مئی 2023 کو مردان کے نواحی علاقے ساول ڈھیر میں ایک سیاسی جماعت کے جلسے میں شریک مولانا نگار علی نامی شخص نے جلسے میں موجود ایک مقامی سیاسی رہنما کے بارے میں کچھ ایسے کلمات ادا کیے جس سے وہاں موجود لوگ نے توہین مذہب کا رنگ دیکر مشتعل ہو گئےاور اس شخص کو موقع پر ہی شدید تشدد کا نشانہ بناکر ہلاک کردیا تھا۔
دوسری طرف انسانی حقوق کے کارکن کہتے ہیں کہ یہ معاملہ انتہائی سنجیدہ نوعیت کا ہے اور اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کی زمہ داری بنتی ہے کہ جلد از جلد خود قانونی کارروائی کرے بصورتِ دیگر مذہب کے معاملات میں لوگ خود قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں۔ جس سے دنیا کو یہ پیغام جاتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہے۔