اسلام آباد( ارشد اقبال) پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس سمیت ملک بھر کی صحافتی تنظیموں کے سخت احتجاج کے باوجود صدر مملکت نےپیکا ایکٹ پر دستخط کردیئے ہیں جس کے بعد یہ بل باقاعدہ قانون بن گیا ہے ۔وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ فرما رہے ہیں کہ اس قانون کا اطلاع الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر نہیں ہوگا ،لیکن حکومت کو مسئلہ فیک نیوز سے ہے اور صحافت تنظیمیں بھی فیک نیوز کے حق میں ہرگز نہیں ، لیکن فیک نیوز کی آڑ میں اگر آزادی اظہار رائے پر پابندی عائد ہوگی تو یہ صحافی کبھی قبول نہیں کرینگے ۔ اب دیکھنا ہوگا کہ آخر پیکا قانون میں ایسا کیا ہے کہ صدر مملکت نے بھی اس پر دستخط کردیئے ۔
دی پری ونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (ترمیمی) بل 2025 میں سیکشن 26 (اے) کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے تحت آن لائن ’جعلی خبروں‘ کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے گی، ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص جان بوجھ کر جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے، یا کسی دوسرے شخص کو بھیجتا ہے، جس سے معاشرے میں خوف یا بدامنی پھیل سکتی ہے، تو اسے تین سال تک قید، 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں ۔
غیر قانونی مواد کی تعریف میں امن عامہ، غیر شائستگی، غیر اخلاقی مواد، توہین عدالت یا اس ایکٹ کے تحت کسی جرم کے لیے اکسانا شامل ہیں، پیکا ایکٹ میں مجوزہ ترمیم میں غیر قانونی مواد کے16 اقسام کے مواد کی فہرست دی گئی۔ غیر قانونی مواد میں گستاخانہ مواد، تشدد، فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینا شامل ہیں۔اسی طرح غیر قانونی مواد میں فحش مواد، کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی شامل ہیں، غیر قانونی مواد میں جعلی یا جھوٹی رپورٹس، آئینی اداروں اور ان کے افسران بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف ’الزام تراشی‘، بلیک میلنگ اور ہتک عزت شامل ہیں ۔
پیکا ایکٹ ترمیمی قانون 2025 کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے،ترمیمی ایکٹ کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی جب کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی ۔
یکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہوگی، سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا ۔
ایکٹ کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی، سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پیمرا، چیئرمین پی ٹی اے (یا چیئرمین پی ٹی اے کی جانب سے نامزد کردہ کوئی بھی رکن) ہوں گے، بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی ۔
حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجینئر بھی شامل ہوں گے جب کہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا،ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی، ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا، صحافی، سافٹ ویئر انجینئر بھی ٹربیونل کا حصہ ہوں گے ۔
اس کو پڑھ کر تو یہی لگ رہا ہے کہ اگر ایک خبر جھوٹ پر مبنی ہوگی یا اس خبر سے کسی کو نقصان پہنچے گا ،یا لوگوں میں نفرت پھیلے گی ، یا خوف وہراس پھیلے گا ،یا دہشتگردی کا خطرہ ہوگا ،تو ایسی خبروں کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہیئے، چاہے وہ خبر سوشل میڈیا پر ،اخبار میں ہو پھر ٹی وی چینلز پر یا ریڈیو میں ، لیکن اگر وفاقی حکومت کی جانب سے فیک کاپی فیڈ کی گئی ہو اور اصل میں یہ کچھ اور ہو تو یہ میڈیا اور حقیقی صحافیوں کے ساتھ بہت زیادتی ہوگی ۔