آفاقیات:۔ (رشید آفاق)
ہر گاؤں میں “پھوپھی ٹائپ” کی ایک خالہ ضرور ہوتی ہے، جسے مقامی زبان میں “گیلا منہ ترور” (یعنی ہر وقت شکوے شکایت کرنے والی خالہ) کہا جاتا ہے۔ پختون معاشرے میں صحافت کرتے کرتے ہم بھی اب وہی “گیلا منہ ترور” بن گئے ہیں۔ ہر وقت ہر کسی سے شکوے کرنا اور پھر انہی شکوؤں کو خبروں کا رنگ دینا، ہماری ایسی عادت بن چکی ہے کہ اب اگر کسی کی تعریف کرنا بھی چاہیں تو اندر سے آواز آتی ہے کہ “یہ سہولت آپ کے سسٹم میں دستیاب نہیں” یا “یہ سافٹ ویئر آپ میں اپڈیٹ نہیں۔”
اس کی ایک زندہ مثال یوں ہے کہ ایک دن میں نے ہمارے محترم مشر اور سینئر صحافی شمیم شاہد صاحب سے کہا کہ ہمارے صدر ایم ریاض صاحب کی کارکردگی بہت مثالی جا رہی ہے۔ وہ حیران ہو کر میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولے: “آپ مطمئن ہیں ان سے؟” میں نے کہا، “جی بالکل۔” تو بولے، “آپ تو کبھی مطمئن نہیں ہوتے، لیکن جب آپ ایم ریاض صاحب کی کارکردگی سے مطمئن ہیں تو اس کا مطلب ہے بندہ واقعی درست سمت جا رہا ہے۔”
اگرچہ ایم ریاض صاحب سے ہماری 25 سالہ ذاتی شناسائی بھی ہے، لیکن جب بھی ہم نے انہیں آواز دی، وہ جاگتے ہوئے اور “جی حکم کریں” کہتے ہوئے پائے گئے۔ اگرچہ ہم کم بخت انہیں آواز بھی رات کے آخری پہر ہی میں دیتے ہیں۔
مطلب ہماری قسمت ہی کچھ ایسی ہے۔
پتہ نہیں ہماری روح بے قرار ہے یا معاشرے کی برائیوں نے ہمیں اس قدر منفی بنا دیا ہے کہ ہمیں کسی کی اچھائی دکھائی ہی نہیں دیتی۔
کہنے کا لبِ لباب یہ ہے کہ ہمارے پشاور میں موٹروے پولیس سے ایک ٹریفک آفیسر بطور ایس پی کینٹ تعینات ہوئے ہیں۔ موصوف سے فون پر بات ہوئی، ملنے کے وعدے وعید بھی ہوئے، لیکن شومئی قسمت کہ ملاقات نہ ہو سکی۔ کل ایک مشترکہ دوست کے ہاں ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔
موصوف کی شخصیت دیکھ کر بندہ آدھا تو ویسے ہی ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے، اور باقی آدھا ان سے بات کرنے کے بعد۔
ایس پی عبدالرّحیم اس وقت پشاور کینٹ میں بطور ایس پی ٹریفک تعینات ہیں اور جب سے آئے ہیں ہر جگہ ان کے چرچے ہیں۔ ان کی شاندار خدمات نے کمیونٹی پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ انہوں نے سڑکوں پر ٹریفک کے بہاؤ کو مؤثر طریقے سے منظم کیا، معمول کی ٹریفک جام کی صورتحال کو بہتر کیا، خاص طور پر صدر روڈ پر، اور طویل عرصے سے موجود مسائل، مثلاً تختو مسجد کے یو ٹرن کا مسئلہ کنٹونمنٹ بورڈ کے تعاون سے حل کیا۔
انہوں نے صدر روڈ، فوارہ چوک، شافی مارکیٹ اور سنہری مسجد روڈ پر باقاعدگی سے انسدادِ تجاوزات مہمات چلائیں تاکہ ٹریفک کی روانی برقرار رہے۔ خاص بات یہ ہے کہ وہ قانون کی یکساں عملداری پر یقین رکھتے ہیں اور کسی کے عہدے یا حیثیت کی پرواہ کیے بغیر ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل کرواتے ہیں، جس کی بدولت وہ ایک ایماندار اور منصف آفیسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
صدر بازار یونین اور کاروباری برادری ان کی مخلصانہ پولیسنگ اور روئیے کو دل سے سراہتی ہے۔ عوام کی خدمت کے لیے ان کی وابستگی نے مسافروں اور مقامی کاروباری افراد کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈالا ہے۔ ایسے افسران کو دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے جو واقعی معاشرے میں تبدیلی لا رہے ہیں، اور ایس پی عبدالرّحیم کی شاندار خدمات یقینی طور پر قابلِ تحسین و ستائش ہیں۔
ہم نے تو ٹریفک پولیس کو فقط چالان کاٹنے والی مشین ہی سمجھا تھا، لیکن عبدالرّحیم صاحب سے ملاقات کے بعد احساس ہوا کہ اس محکمہ میں آج بھی قابل تقلید اور قدر کے لائق افسران موجود ہیں۔
موصوف کا تعلق ضلع بنوں سے ہے، اسی لیے ان کے لہجے میں بنوں کے مشہور حلوے جیسی مٹھاس اور شخصیت میں ایک معتبر، روایتی پختون افسر کی شان جھلکتی ہے۔
ان سے بات شروع کرتے ہی وقت کا احساس ہی نہیں رہتا، جیسے کوئی شاعر بول رہا ہو اور ایک باذوق سامع اسے سن رہا ہو۔
محترم آئی جی صاحب سے درخواست ہے کہ ایسے عوام دوست اور ماحول دوست افسران کو ٹریفک پولیس میں مزید مواقع دیے جائیں، کیونکہ اس مثالی پولیس کی حالیہ کارکردگی نے اسے غیر فعال سے فعال ادارہ بنا دیا ہے۔ ایک طرف ہلمٹ کی قیمت چار سو روپے ہے، دوسری طرف یہ حضرات ہلمٹ نہ پہننے پر ایک ہزار بیس روپے کا چالان دے رہے ہیں۔
اس تعفن زدہ ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے مزید ایسے عوام دوست اور پرخلوص افسران کی تعیناتی ضروری ہے۔
ورنہ وہ دن دور نہیں جب شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کا مسئلہ یوں مستقل طور پر حل ہو جائے گا کہ لوگ احتجاجاً اپنی گاڑیاں گھروں میں بند کر کے سڑکوں پر پیدل چلنے لگیں گے، کیونکہ موجودہ حالات میں ٹریفک کا مسئلہ اگر کسی طرح حل ہو سکتا ہے، تو وہ یہ کہ شہر سے تمام گاڑیوں کو ہی نکال دیا جائے۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔