پاکستان کے سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی کے مسائل کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ اس موضوع پر خیبر نیوز کے پروگرام ”مرکہ ود حسن خان“میں سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ پروگرام میں قبائلی اضلاع کے نمائندگان پی ٹی آئی کے خیبر سے ایم این اے اقبال خان آفریدی، باجوڑ سے مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما شہاب الدین خان اور باجوڑ سے اے این پی کے مقامی رہنما مولانا خان زیب نے شرکت کی۔
اس حوالے سے شرکا نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں اس وقت حکومتی عملداری نہ ہونے کے برابر ہے، ان علاقوں میں نہ تو بیوکرسی کام کرتی ہے نہ انتظامی سطح پر کو زمہ داری لینے کو تیار ہے، سابقہ فاٹا کے انضمام کے بعد صوبائی اور مرکزی حکومتیں بھی قبائلی علاقوں کی زمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ شرکا نے فوج کے حوالے سے بات کرتے بتایا کہ فوج سیولین اداروں کو کام نہیں کرنے دیتی اور بہت سارے مسائل اس وجہ سے بھی ہے۔
شرکا نے مزید بات کرتے ہوئے بتایا کہ بظاہر تو فاٹا انضمام کے بعد پولیس کو قبائلی علاقوں میں اختیارات دئیے گئےہیں مگرپولیس نام کی کسی چیز کا وجود نہیں ہے، قبائلی علاقوں کی پولیس ملک اور صوبے کے دیگر بندوبستی علاقوں سے بہت الگ ہے۔ قبائلی علاقوں میں پولیس سٹیشنوں کا وجود ہی نہیں ہے، ان علاقوں میں پولیس جو خاصہ دار سے بھرتی کیے گئے ہیں وہ ابھی تک ٹریننگ اور وسائل کے شدید مسائل ہیں۔ پولیس رات کو تھانے بند کر دیتی ہے۔
انضمام کے بعد قبائلی علاقوں کی اونرشپ کا مسلہ بن گیا ہے، قبائلی علاقوں کو فنڈز کے شدید مسائل ہیں، دوسرا حکومت جب بھی بجٹ کٹ لگاتی ہے تو وہ قبائلی علاقوں کے فنڈز پر لگاتی ہے۔ سابقہ فاٹا کا انضمام ریفارمز ایجنڈا بھی نامکمل ہے اور اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔
دوسرا مسلہ نمائندگی کا ہے بظاہر تو قبائلی علاقوں سے ایم این ایز اور ایم پی ایز منتخب ہوکر اس پارلیمان جاتے ہیں مگر نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، کابینہ میں بھی قبائلی علاقوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے
شرکا نے پروگرام میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال اس حد تک خراب ہے کہ کئی علاقوں میں دہشتگرد دھندناتے پھرتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں، دہشتگرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے لوگ قبائلی علاقوں میں آزاد نقل و حرکت کرتے ہیں اور کوئی انکو روکنے والا نہیں۔
شرکاء کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی مسائل کا سیکورٹی خدشات کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یہ ایک اہم معاملہ ہے جس پرتوجہ دئیے جانے کی ضرورت ہے۔ شرکا نے بیروزگاری سے لے کر قانون کے نفاذ تک، موجودہ حالات کا جائزہ لیا اور ان کثیر جہتی چیلنجوں پر بات کی جن کا ہماری قوم کو سامنا ہے۔
حفاظتی اقدامات اور سرحدی مسائل
شرکا کا کہنا تھا کہ ہماری بحث پورے ملک میں وسیع حفاظتی اقدامات پر نظر ڈالنے سے شروع ہوتی ہے۔ شاہراہوں سے لے کر قبائلی سرحدوں تک، چوکیاں ایک عام منظر بن گئی ہیں، جن کا مقصد حفاظت اور کنٹرول کو یقینی بنانا ہے۔ تاہم، قبائلی سرحد، جس نے اہم تبدیلیاں دیکھی ہیں، ایک مرکزی نقطہ بنی ہوئی ہے۔وہ علاقہ جو کبھی وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ تھا، اب انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس کے نظام کے پیچیدہ اور الجھے ہوئے نفاذ سے دوچار ہے۔
سیاسی اور فوجی انضمام پرشرکا کا نقطہ نظر
پاکستان مسلم لیگ کے رہنما شہاب الدین خان نے تاریخی تناظر پربات کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی علاقے براہ راست صوبائی نظام سے منسلک تھے جہاں پر اصلاحات مؤثر طریقے سے نافذ نہیں کی گئیں۔
گورننس اور نمائندگی میں چیلنجز
اقبال آفریدی نے حکمرانی کی پیچیدہ نوعیت کی نشاندہی کی، جہاں پانچ الگ الگ ادارے مرکزی حکومت، فوج، اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی، اور عسکریت پسند کام کرتے ہیں۔ یہ طرز حکمرانی قبائلی علاقوں اور ملک کے باقی حصوں کے درمیان رابطہ منقطع کرتی ہے، جس سے ناکافی نمائندگی اور موثر اصلاحات کی کمی جیسے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔
انسانی تحفظات اور سماجی استحکام
شہاب الدین خان نے معاشرے کے اندر سماجی ہم آہنگی اور باہمی تعاون کی اشد ضرورت کی نشاندہی کی۔ان کا کہنا تھاکہ اجتماعی کوششوں اور ہمدردی کے بغیر، حکومتی کارروائیوں کے ثمرات مفقود رہتے ہیں۔ انتظامی مسائل، جیسے عدلیہ اور امن و امان کے قیام کے لیے ایک مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے۔
سیاسی جدوجہد اور قانون سازی
مہمان اس بات پر متفق تھے کہ سیاسی جدوجہد اور قانون سازی کی اصلاحات اہم ہیں۔ بات چیت میں قبائلی علاقوں کو صوبائی ڈھانچے میں ضم کرنے کی حالیہ کوششوں پر روشنی ڈالی گئی، چیلنجز اور پیش رفت کو اجاگر کیا گیا۔
سیاسی قیادت کا کردار
شرکا اس بات پر متفق تھے کہ قبائلی علاقوں کی ضروریات کو حقیقی طور پر پورا کرنے کے لیے قیادت کو ذاتی اور جماعتی مفادات سے بالاتر ہونا چاہیے۔ اس بحث میں تاریخی فیصلوں کے اثرات اور قبائلی انضمام اور ترقی پر ایک واضح، متحد موقف کی ضرورت پر بھی غور کیا گیا۔
پروگرام کے اختتام پر، بات چیت کے عمل کو جاری رکھنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مہمانوں نے قبائلی علاقوں میں تعلیم، صحت اور معاشی استحکام جیسے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی اہمیت پر زور ددیا۔انہوں نے موثر حکمرانی کی ضرورت پر بات کی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ عوام سے کیے گئے وعدے پورے ہوں۔