Close Menu
اخبارِخیبرپشاور
    مفید لنکس
    • پښتو خبرونه
    • انگریزی خبریں
    • ہم سے رابطہ کریں
    Facebook X (Twitter) Instagram
    ہفتہ, مئی 31, 2025
    • ہم سے رابطہ کریں
    بریکنگ نیوز
    • ہمایوں سعید نے خیبر ٹی وی نیٹ ورک پشاور سنٹر میں اپنی نئی فلم ’’لو گرو‘‘ کا پشتو گانا لانچ کردیا
    • ارشد ندیم نے ایشین ایتھلیٹکس چیمپئین شپ میں گولڈ میڈل جیت لیا
    • خاموش صبر یا سماجی جرم؟ خواتین پر تشدد کی حقیقت اور زینب کی خاموش چیخ!
    • مختلف ممالک کی جانب سے پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ
    • چھتیس گڑھ میں مسیحی قبائل پر حملے، مودی سرکار کی مجرمانہ خاموشی اور اقلیت دشمن پالیسیاں بے نقاب
    • آپریشن سندور، یا آپریشن سیاست؟ مودی سرکار کا ایک اور ڈرامہ بے نقاب
    • عالمی سطح پر بھارت کا پاکستان مخالف بیانیہ ناکام ہوگیا
    • بھارتی فضائیہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھوں رسوا
    Facebook X (Twitter) RSS
    اخبارِخیبرپشاوراخبارِخیبرپشاور
    پښتو خبرونه انگریزی خبریں
    • صفحہ اول
    • اہم خبریں
    • قومی خبریں
    • بلوچستان
    • خیبرپختونخواہ
    • شوبز
    • کھیل
    • دلچسپ و عجیب
    • بلاگ
    اخبارِخیبرپشاور
    آپ پر ہیں:Home » وسائل نیچے، مسائل اوپر: آئینی بحران یا وفاقی سرزوری؟
    بلاگ

    وسائل نیچے، مسائل اوپر: آئینی بحران یا وفاقی سرزوری؟

    اپریل 12, 2025کوئی تبصرہ نہیں ہے۔5 Mins Read
    Facebook Twitter Email
    Resources down, problems up: Constitutional crisis or federal intervention
    حالیہ قانون سازی نے یہ خدشات پیدا کر دیے ہیں کہ آیا ان وسائل کو صوبائی ترقی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے یا بیرونی دباؤ کے تحت قربان کیا جا رہا ہے۔
    Share
    Facebook Twitter Email

    پشاور سے خالد خان کی تحریر: ۔

    خیبر پختونخوا (کے پی) کے قدرتی وسائل نے ایک بار پھر نہ صرف ملک گیر سطح پر ملکیت اور دائرہ اختیار کے حوالے سے بحث کو جنم دیا ہے بلکہ یہ سوال بھی کھڑا کر دیا ہے کہ آئینی وفاقیت، جمہوری شفافیت اور پاکستان کی معاشی خودمختاری کا مستقبل کیا ہوگا؟ اگرچہ کے پی کے معدنی ذخائر ہمیشہ ایک قیمتی اثاثہ سمجھے گئے ہیں، تاہم حالیہ قانون سازی نے یہ خدشات پیدا کر دیے ہیں کہ آیا ان وسائل کو صوبائی ترقی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے یا بیرونی دباؤ کے تحت قربان کیا جا رہا ہے ۔

    2010 میں منظور ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم نے پاکستان کے وفاقی ڈھانچے میں ایک تاریخی تبدیلی متعارف کرائی۔ اس نے ان شعبوں پر صوبوں کو اختیار دیا جو پہلے وفاق کے زیر انتظام تھے، جن میں معدنی وسائل بھی شامل تھے۔ آئین کے آرٹیکل 172(3) کے مطابق:
    "کسی موجودہ قانون کے تابع، کسی صوبے میں یا اس سے متصل علاقائی پانیوں میں موجود معدنی تیل اور قدرتی گیس کی ملکیت مساوی طور پر اس صوبے اور وفاقی حکومت کو حاصل ہوگی ۔”
    اس شق کو اور دیگر متعلقہ دفعات کو یوں سمجھا گیا کہ معدنی وسائل پر بنیادی اختیار صوبوں کو حاصل ہے اور وفاق کی شمولیت باہمی مشاورت پر مبنی ہونی چاہیے، زبردستی پر نہیں ۔

    اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں، بشمول کے پی، نے اپنی اپنی معدنیات سے متعلق قوانین بنائے، جیسے کہ 2017 کا "کے پی مائنز اینڈ منرلز ایکٹ”۔ ان قوانین نے لائسنسنگ، رائلٹی، اور ماحولیاتی تحفظ کے اصول وضع کیے، تاکہ عوام کو ان وسائل سے براہ راست فائدہ پہنچے۔ لیکن ان قوانین پر عملدرآمد غیر یقینی، بدعنوانی اور بیرونی مداخلت کے باعث شدید متاثر ہوا ۔

    اپریل 2025 کے آغاز میں کے پی کابینہ کی جانب سے منظور کی گئی ترامیم، جن کے تحت مبینہ طور پر معدنی وسائل پر کلیدی اختیار وفاق کو منتقل کیا جا رہا ہے، نے شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ مجوزہ قانون میں "سٹریٹجک منرلز” کو وفاقی دائرہ اختیار میں لانے کی کوشش کی گئی ہے، جو اٹھارہویں ترمیم کی روح کے منافی سمجھا جا رہا ہے۔ اس عمل میں سب سے زیادہ قابلِ اعتراض بات قانون سازی کا غیر شفاف طریقہ کار ہے — نہ کوئی عوامی مشاورت ہوئی، نہ ہی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اندرونی حلقوں میں مکمل اتفاقِ رائے ۔

    یاد رہے کہ ایک ایسا ہی بل اگست 2024 میں بھی پیش کیا گیا تھا، مگر پی ٹی آئی کے اپنے اراکین اسمبلی کی مخالفت کی وجہ سے اسے مؤخر کرنا پڑا تھا۔ اس وقت بھی پارلیمانی کمیٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، اور محرکات پر سوالات اٹھے تھے۔ اب جب کہ تقریباً وہی بل دوبارہ پیش کیا گیا ہے، تو شکوک و شبہات پھر سے جنم لے رہے ہیں: آٹھ مہینے میں کیا بدلا؟ اس بار پارلیمانی بحث کیوں نہیں ہوئی؟ اختلافِ رائے ختم ہوا یا دبایا گیا؟

    اس قانون سازی کے وقت نے سیاسی قیاس آرائیوں کو ہوا دی ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت اس بل کو عمران خان کی رہائی کے لیے ایک سودے بازی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ اگرچہ یہ نظریہ ابھی ثابت نہیں ہوا، لیکن یہ اس وسیع تر بےاعتمادی کو ظاہر کرتا ہے جو سیاسی اداروں میں موجود ہے، جہاں قومی وسائل کو اشرافیہ کی سطح پر طاقت کے کھیل کا حصہ تصور کیا جاتا ہے ۔

    قوم پرست جماعتوں، خاص طور پر کے پی اور بلوچستان میں، نے ان ترامیم پر شدید اعتراض اٹھایا ہے۔ ان کے نزدیک معدنیات صرف اقتصادی وسائل نہیں بلکہ صوبائی خودمختاری اور شناخت کی علامت ہیں۔ ان وسائل کو ایک ایسی وفاقی حکومت کے سپرد کرنا، جسے پی ٹی آئی خود "فارم 47” کی بنیاد پر جعلی قرار دیتی ہے، نہ صرف تضاد ہے بلکہ اسے غداری کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے ۔

    بحث کو مزید تیز اس وقت کیا گیا جب ناقدین نے الزام لگایا کہ پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ قومی مفاد کے نام پر معاشی شعبوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ عسکری قیادت کی زیر نگرانی "گرین” منصوبے، زرعی زمینوں پر قبضے، نہری نظام پر کنٹرول، اور اب معدنیات جیسے اقدامات ایک ایسے منصوبے کا حصہ ہیں جس کے تحت تمام سٹریٹجک اثاثے مرکز میں مجتمع کیے جا رہے ہیں — ممکنہ طور پر بین الاقوامی طاقتوں، بالخصوص مغربی قوتوں کے ساتھ سودے بازی کے لیے ۔

    بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ان واقعات کو عالمی رجحانات کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے، جہاں فوجی و صنعتی اتحاد اکثر قدرتی وسائل پر قبضہ جمانے کے لیے کارپوریٹ سرمایہ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، خاص طور پر ایسے خطوں میں جو جغرافیائی لحاظ سے حساس اور قدرتی ذخائر سے مالا مال ہوں۔ افغانستان سے متصل اور قدرتی وسائل سے بھرپور کے پی اسی فہرست میں آتا ہے۔ خطرہ صرف مقامی خودمختاری کے چھننے کا نہیں، بلکہ قومی خودمختاری کے عالمی ایجنڈوں کے تابع ہو جانے کا ہے ۔

    تاہم ان خدشات کا جائزہ سائنسی، عقلی اور حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر سے لینا ضروری ہے۔ قدرتی وسائل محدود ہیں اور ان کا استعمال پائیداری، ماحولیاتی تحفظ، اور منصفانہ تقسیم کے اصولوں کے تحت ہونا چاہیے۔ کے پی کی معدنیات اگر دانائی سے استعمال کیے جائیں، تو صوبے کی معیشت کو بدل سکتی ہیں۔ اختیار صوبے کے پاس ہو یا مرکز کے ساتھ اشتراک میں—اصل بات شفافیت، جواب دہی، اور عوامی شراکت داری ہے ۔

    آخر میں، یہ مسئلہ محض سیاسی جماعتوں کا نہیں، بلکہ پاکستان کے وفاقی جمہوری ڈھانچے کی روح کا ہے۔ یہ تمام فریقین کے مابین دیانتدارانہ مکالمے، آئین سے تجدیدِ عہد، اور قانون سازی میں خفیہ رویوں کے خاتمے کا تقاضہ کرتا ہے ۔ خیبر پختونخوا کے عوام کو ابہام نہیں وضاحت چاہیے؛ استحصال نہیں بااختیاری؛ سرپرستی نہیں شراکت۔ اگر قدرتی وسائل واقعی قومی اثاثے ہیں، تو ان کا نظم و نسق ان لوگوں کی مرضی سے شروع ہونا چاہیے جو ان کے اوپر بستے ہیں ۔

    Share. Facebook Twitter Email
    Previous Articleپی ایس ایل 10: کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے پشاور زلمی کو 80 رنز سے ہرادیا
    Next Article خیبرپختونخوا یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کی تقرری کا کیس 15 اپریل کو سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے مقرر
    Arshad Iqbal

    Related Posts

    خاموش صبر یا سماجی جرم؟ خواتین پر تشدد کی حقیقت اور زینب کی خاموش چیخ!

    مئی 31, 2025

    بشیر خان عمرزئی تاریخ کے آئینے میں

    مئی 30, 2025

    جوہری خطرات بڑھ رہے ہیں

    مئی 30, 2025
    Leave A Reply Cancel Reply

    Khyber News YouTube Channel
    khybernews streaming
    فولو کریں
    • Facebook
    • Twitter
    • YouTube
    مقبول خبریں

    ہمایوں سعید نے خیبر ٹی وی نیٹ ورک پشاور سنٹر میں اپنی نئی فلم ’’لو گرو‘‘ کا پشتو گانا لانچ کردیا

    مئی 31, 2025

    ارشد ندیم نے ایشین ایتھلیٹکس چیمپئین شپ میں گولڈ میڈل جیت لیا

    مئی 31, 2025

    خاموش صبر یا سماجی جرم؟ خواتین پر تشدد کی حقیقت اور زینب کی خاموش چیخ!

    مئی 31, 2025

    مختلف ممالک کی جانب سے پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ

    مئی 31, 2025

    چھتیس گڑھ میں مسیحی قبائل پر حملے، مودی سرکار کی مجرمانہ خاموشی اور اقلیت دشمن پالیسیاں بے نقاب

    مئی 31, 2025
    Facebook X (Twitter) Instagram
    تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2025 اخبار خیبر (خیبر نیٹ ورک)

    Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.