پشاور سے خالد خان کی تحریر: ۔
خیبر پختونخوا (کے پی) کے قدرتی وسائل نے ایک بار پھر نہ صرف ملک گیر سطح پر ملکیت اور دائرہ اختیار کے حوالے سے بحث کو جنم دیا ہے بلکہ یہ سوال بھی کھڑا کر دیا ہے کہ آئینی وفاقیت، جمہوری شفافیت اور پاکستان کی معاشی خودمختاری کا مستقبل کیا ہوگا؟ اگرچہ کے پی کے معدنی ذخائر ہمیشہ ایک قیمتی اثاثہ سمجھے گئے ہیں، تاہم حالیہ قانون سازی نے یہ خدشات پیدا کر دیے ہیں کہ آیا ان وسائل کو صوبائی ترقی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے یا بیرونی دباؤ کے تحت قربان کیا جا رہا ہے ۔
2010 میں منظور ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم نے پاکستان کے وفاقی ڈھانچے میں ایک تاریخی تبدیلی متعارف کرائی۔ اس نے ان شعبوں پر صوبوں کو اختیار دیا جو پہلے وفاق کے زیر انتظام تھے، جن میں معدنی وسائل بھی شامل تھے۔ آئین کے آرٹیکل 172(3) کے مطابق:
"کسی موجودہ قانون کے تابع، کسی صوبے میں یا اس سے متصل علاقائی پانیوں میں موجود معدنی تیل اور قدرتی گیس کی ملکیت مساوی طور پر اس صوبے اور وفاقی حکومت کو حاصل ہوگی ۔”
اس شق کو اور دیگر متعلقہ دفعات کو یوں سمجھا گیا کہ معدنی وسائل پر بنیادی اختیار صوبوں کو حاصل ہے اور وفاق کی شمولیت باہمی مشاورت پر مبنی ہونی چاہیے، زبردستی پر نہیں ۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں، بشمول کے پی، نے اپنی اپنی معدنیات سے متعلق قوانین بنائے، جیسے کہ 2017 کا "کے پی مائنز اینڈ منرلز ایکٹ”۔ ان قوانین نے لائسنسنگ، رائلٹی، اور ماحولیاتی تحفظ کے اصول وضع کیے، تاکہ عوام کو ان وسائل سے براہ راست فائدہ پہنچے۔ لیکن ان قوانین پر عملدرآمد غیر یقینی، بدعنوانی اور بیرونی مداخلت کے باعث شدید متاثر ہوا ۔
اپریل 2025 کے آغاز میں کے پی کابینہ کی جانب سے منظور کی گئی ترامیم، جن کے تحت مبینہ طور پر معدنی وسائل پر کلیدی اختیار وفاق کو منتقل کیا جا رہا ہے، نے شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ مجوزہ قانون میں "سٹریٹجک منرلز” کو وفاقی دائرہ اختیار میں لانے کی کوشش کی گئی ہے، جو اٹھارہویں ترمیم کی روح کے منافی سمجھا جا رہا ہے۔ اس عمل میں سب سے زیادہ قابلِ اعتراض بات قانون سازی کا غیر شفاف طریقہ کار ہے — نہ کوئی عوامی مشاورت ہوئی، نہ ہی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اندرونی حلقوں میں مکمل اتفاقِ رائے ۔
یاد رہے کہ ایک ایسا ہی بل اگست 2024 میں بھی پیش کیا گیا تھا، مگر پی ٹی آئی کے اپنے اراکین اسمبلی کی مخالفت کی وجہ سے اسے مؤخر کرنا پڑا تھا۔ اس وقت بھی پارلیمانی کمیٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، اور محرکات پر سوالات اٹھے تھے۔ اب جب کہ تقریباً وہی بل دوبارہ پیش کیا گیا ہے، تو شکوک و شبہات پھر سے جنم لے رہے ہیں: آٹھ مہینے میں کیا بدلا؟ اس بار پارلیمانی بحث کیوں نہیں ہوئی؟ اختلافِ رائے ختم ہوا یا دبایا گیا؟
اس قانون سازی کے وقت نے سیاسی قیاس آرائیوں کو ہوا دی ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت اس بل کو عمران خان کی رہائی کے لیے ایک سودے بازی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ اگرچہ یہ نظریہ ابھی ثابت نہیں ہوا، لیکن یہ اس وسیع تر بےاعتمادی کو ظاہر کرتا ہے جو سیاسی اداروں میں موجود ہے، جہاں قومی وسائل کو اشرافیہ کی سطح پر طاقت کے کھیل کا حصہ تصور کیا جاتا ہے ۔
قوم پرست جماعتوں، خاص طور پر کے پی اور بلوچستان میں، نے ان ترامیم پر شدید اعتراض اٹھایا ہے۔ ان کے نزدیک معدنیات صرف اقتصادی وسائل نہیں بلکہ صوبائی خودمختاری اور شناخت کی علامت ہیں۔ ان وسائل کو ایک ایسی وفاقی حکومت کے سپرد کرنا، جسے پی ٹی آئی خود "فارم 47” کی بنیاد پر جعلی قرار دیتی ہے، نہ صرف تضاد ہے بلکہ اسے غداری کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے ۔
بحث کو مزید تیز اس وقت کیا گیا جب ناقدین نے الزام لگایا کہ پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ قومی مفاد کے نام پر معاشی شعبوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ عسکری قیادت کی زیر نگرانی "گرین” منصوبے، زرعی زمینوں پر قبضے، نہری نظام پر کنٹرول، اور اب معدنیات جیسے اقدامات ایک ایسے منصوبے کا حصہ ہیں جس کے تحت تمام سٹریٹجک اثاثے مرکز میں مجتمع کیے جا رہے ہیں — ممکنہ طور پر بین الاقوامی طاقتوں، بالخصوص مغربی قوتوں کے ساتھ سودے بازی کے لیے ۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ان واقعات کو عالمی رجحانات کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے، جہاں فوجی و صنعتی اتحاد اکثر قدرتی وسائل پر قبضہ جمانے کے لیے کارپوریٹ سرمایہ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، خاص طور پر ایسے خطوں میں جو جغرافیائی لحاظ سے حساس اور قدرتی ذخائر سے مالا مال ہوں۔ افغانستان سے متصل اور قدرتی وسائل سے بھرپور کے پی اسی فہرست میں آتا ہے۔ خطرہ صرف مقامی خودمختاری کے چھننے کا نہیں، بلکہ قومی خودمختاری کے عالمی ایجنڈوں کے تابع ہو جانے کا ہے ۔
تاہم ان خدشات کا جائزہ سائنسی، عقلی اور حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر سے لینا ضروری ہے۔ قدرتی وسائل محدود ہیں اور ان کا استعمال پائیداری، ماحولیاتی تحفظ، اور منصفانہ تقسیم کے اصولوں کے تحت ہونا چاہیے۔ کے پی کی معدنیات اگر دانائی سے استعمال کیے جائیں، تو صوبے کی معیشت کو بدل سکتی ہیں۔ اختیار صوبے کے پاس ہو یا مرکز کے ساتھ اشتراک میں—اصل بات شفافیت، جواب دہی، اور عوامی شراکت داری ہے ۔
آخر میں، یہ مسئلہ محض سیاسی جماعتوں کا نہیں، بلکہ پاکستان کے وفاقی جمہوری ڈھانچے کی روح کا ہے۔ یہ تمام فریقین کے مابین دیانتدارانہ مکالمے، آئین سے تجدیدِ عہد، اور قانون سازی میں خفیہ رویوں کے خاتمے کا تقاضہ کرتا ہے ۔ خیبر پختونخوا کے عوام کو ابہام نہیں وضاحت چاہیے؛ استحصال نہیں بااختیاری؛ سرپرستی نہیں شراکت۔ اگر قدرتی وسائل واقعی قومی اثاثے ہیں، تو ان کا نظم و نسق ان لوگوں کی مرضی سے شروع ہونا چاہیے جو ان کے اوپر بستے ہیں ۔