انسانی اعضا میں سر کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ٹوپی سر کا پہناوا ہے، سو اس کی فضیلت ہر سترپوش سے زیادہ ہے۔ کبھی کبھار تو ٹوپی کی اہمیت سر سے بھی بڑھ کر ثابت ہوتی ہے۔ دیگر پہناووں کے مقابلے میں ٹوپی نہ صرف جاندار پہناوا ہے بلکہ جذبات کا اظہار بھی کرتی رہتی ہے۔ ٹوپی کا عقیدہ، مسلک اور نظریہ بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مذہب، مسلک، عقیدے اور فرقے کی ٹوپی سائز، شکل، ڈیزائن اور رنگ میں دوسرے سے الگ ہوتی ہے۔ اس تقسیم کو انسانوں کے سروں پر دیکھا جا سکتا ہے یا یوں کہیے انسانوں کے سروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
زندہ ہونے کی وجہ سے ٹوپی جغرافیہ اور تاریخ بھی رکھتی ہے اور یوں ثقافتوں کی ترجمانی بھی کرتی ہے۔ اگر ترکوں کی ترکی اور رومیوں کی رومی ٹوپی ہوتی ہیں تو گورے بھی ہیٹ رکھتے ہیں۔ وسطی ایشیائی ممالک قراقل کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔
اگر ہمارے ہاں ایک زمانے میں بدمعاش طُلہ دار ٹوپی پہنتے تھے تو گورے کے غنڈے کاو بوائے ٹوپی سر پر جماتے تھے۔ ٹوپی کا موجد معلوم نہیں، مگر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ٹوپی کا تصور انسان نے تربوز سے لیا ہوگا۔
دنیا میں ایک ایسے انسان بھی گزرے ہیں جنہوں نے بیک وقت دو ایجادات کی ہیں۔ محمد علی جناح وہ واحد انسان تھے جنہوں نے پہلے ایک مخصوص ٹوپی ایجاد کی، جسے جناح کیپ کہتے ہیں، اور پھر ایک ملک ایجاد کیا، جو پاکستان کہلاتا ہے۔
پاکستان میں ٹوپی کی اہمیت تمام دنیا سے زیادہ ہے۔ مسجد، مدارس اور مزاروں میں اس کا استعمال دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک کی کم و بیش 25 کروڑ آبادی 50 کروڑ اقسام والی ٹوپیوں میں منقسم ہے۔
تمام عام پاکستانیوں کو دو طرح کی ٹوپیاں استعمال کرنے کا تجربہ بچپن سے ہوتا ہے۔ ایک ٹوپی تو سکول یونیفارم کا حصہ ہونے کی وجہ سے سر پر بچپن میں پہنتے ہیں اور ریسیس میں وہی ٹوپی کھیل کھیل میں جب تشریف کے پیچھے رکھی جاتی تھی تو خوب مار پڑتی تھی۔
ٹوپی کا استعمال بلندی اور پستی میں، دونوں طرح سے، گویا پاکستانیوں کو خوب آتا ہے۔
پاکستان میں مختلف قسم کی ٹوپیاں پہنی اور پہنائی جاتی ہیں۔ مذہبی ٹوپی تو گویا جزوِ ایمان ہوتی ہے لیکن سیاسی ٹوپی بھی لازم و ملزوم ہوتی ہے۔
سیاست میں سر سے زیادہ ٹوپی کی اہمیت ہوتی ہے، اور یہ اہمیت اتنی شدید ہوتی ہے کہ علامہ اقبال جیسے شدت پسند بھی خاصے معتدل اور معقول انسان لگنے لگتے ہیں۔
علامہ نے کہا تھا:
جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
اقبال کے مطابق جمہوریت میں تول کی بجائے گنتی چلتی ہے۔ بالکل درست بات کہی ہے علامہ نے۔ جمہوریت میں ووٹ اور نوٹ ہی تو گنے جاتے ہیں۔
اس گنتی کے مقابلے میں بہرحال کہیں نہ کہیں اس بے سرے ٹوپی کا کردار نکل ہی آتا ہے۔ جب بھی کوئی بندہ کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوتا ہے، تو اسے سب سے پہلے اس سیاسی جماعت کی ٹوپی پہنائی جاتی ہے۔
خدا جانے کیا کمال ہے اس جادوئی ٹوپی میں کہ پہنتے ہی سر سے عقل ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔
یا شاید سیاسی ٹوپی اس سر پر فٹ آتی ہو، جس میں پہلے سے مغز موجود نہ ہو۔
بہرحال، جو بھی ہو، مگر یہ طے ہے کہ عقل اور ٹوپی ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہیں۔ بلی چوہے کی طرح، بلی کتے کی طرح، اور شیر اور بکری کی طرح۔
جس طرح ایک میان میں دو تلواریں نہیں سمائی جا سکتیں، عین اسی طرح ایک سر پر اور میں ٹوپی اور دماغ نہیں رکھے جا سکتے۔
چاہے سیاسی ہو، مذہبی ہو، قومی یا مسلکی ہو، ایک سر پر اور میں دونوں چیزیں نہیں جمائی اور سمائی جا سکتیں۔
علامہ سے معذرت کے ساتھ:
جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
ٹوپی کو گِنا جاتا ہے، تولا نہیں جاتا۔
پاکستان میں ٹوپی پہننے کا رواج قیامِ پاکستان سے شروع ہوتے ہوئے آج تک قائم ہے۔
بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ پاکستان میں اگر کسی چیز نے ترقی کی ہے تو وہ صرف ٹوپی ہی ہے۔
قیامِ پاکستان کے وقت بابائے قوم نے قوم کو جناح کیپ پہنائی اور بابائے قوم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آج بابا کے سیاسی، ریاستی اور مذہبی بابے بھی قوم کو ٹوپیاں پہناتے ہیں۔
سننے میں آیا ہے کہ ہم سے پہلے بھی بندروں کی قوم کو ایک سوداگر ٹوپیاں پہناتا تھا، لیکن بندروں نے دماغ کو بچانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ٹوپیاں پہننا ترک کر دیا۔
مگر بندر نے سر اور ٹوپی کے ترکِ تعلق کی ایک قیمت ادا کی تھی۔ ایک دن جنگل میں سوداگر کو سوتا ہوا پا کر بندروں نے تمام ٹوپیاں چرا کر پہن لیں اور اونچے درختوں پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔
جب سوداگر جاگا تو ٹوپیوں کو غائب پا کر اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ پریشانی کے عالم میں سر پر ہاتھ پھیرا تو اپنی ٹوپی پہنے ہوئے شکر ادا کیا۔
سوداگر نے اپنے سر سے ٹوپی اتار کر پھینک دی اور درختوں سے بھی ٹوپیوں کی بارش برسنے لگی۔
دفاعی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ سوداگر نے بہترین حکمتِ عملی اختیار کرتے ہوئے بندروں کی نقالی کی جبلّت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ٹوپیاں واگزار کروائیں۔
تاہم آزاد دانشوروں کا تبصرہ ہے کہ سوداگر نے شکست کا اعلان کرتے ہوئے اپنی ٹوپی پھینکی اور بندروں نے مقبوضہ ٹوپیاں پھینک کر انقلاب کا اعلان کیا۔
سوداگر نے ٹوپیاں سمیٹ کر جب سے جنگل سے بھاگ بھری ہے، تب سے اب تک بندر قومی وقار کے ساتھ آزاد ہیں۔
بندروں کی آزادی اور انقلاب سے ہمیں ایک بات کی سمجھ آتی ہے اور وہ یہ کہ سر پر اور میں دونوں چیزوں یعنی ٹوپی اور دماغ کا قیام ممکن نہیں ہے۔
ٹوپی سر پر رہے گی تو دماغ نہیں ہوگا، اور دماغ ہوگا تو ٹوپی سر پر نہیں آئے گی۔
ٹوپی کی اہمیت کے پیشِ نظر سرکار نے بھی دو طرح کی ٹوپیاں قیامِ پاکستان کے بعد ایجاد کی ہیں۔
ایک ٹوپی لوہے کی ہے، جسے موٹرسائیکل سوار نہیں پہنتے اور جرمانے بھرتے ہیں۔
دوسری ٹوپی ربڑ کی ہے، جسے مولوی اور جہالت پہننے نہیں دیتے۔
انہی دو ٹوپیوں میں پاکستان کی ترقی چھپی ہوئی ہے۔ لوہے کی ٹوپی پہننا جس دن عام ہوا تو سمجھیے پاکستانیوں کو سر اور دماغ کی اہمیت و قدر و قیمت معلوم ہوئی۔
یہ ادراک جب بھی ہوا تب ہمیں کوئی آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتا۔
اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے پہلے مرحلے میں ربڑ کی ٹوپی پہننی پڑے گی۔
اس ٹوپی کے پہنتے ہی “خس کم جہاں پاک” والی برکت اور حرکت منٹوں میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔
دراصل ربڑ والی ٹوپی کا پہننا کوالٹی پروڈکشن کی اولین شرط ہے۔
جس دن ربڑ کی ٹوپی پہننا ہماری ثقافت قرار پایا، یقین جانیے وہی انقلابی لمحہ ہوگا۔
کیا ہے ٹوپی کے لیے؟ ایک عدد سر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور دونوں کے لیے سر موجود ہیں—لوہے کی ٹوپی کے لیے بھی، اور ربڑ کی ٹوپی کے لیے بھی۔
بس ربڑ کی ٹوپی پہننے کی عادت کو قومی عادت بنائیے،
اور اعلیٰ انسانوں کے درمیان زندگی کا لطف اٹھائیے۔