یورپ کی معروف ڈیفنس تجزیاتی ویب سائٹ نے پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے دوران ایک بڑے واقعے کی نشاندہی کی ہے، جسے ماہرین نے "پاک بھارت جنگ کا سب سے اہم اور ہائی پروفائل واقعہ” قرار دیا ہے — وہ واقعہ ہے بھارتی دفاعی نظام ایس-400 کی تباہی۔
یہ انکشاف بلغاریہ ملٹری ریویو کی رپورٹ میں کیا گیا ہے، جس کے مطابق بھارتی ریاست پنجاب میں واقع آدم پور ایئربیس پر پاکستانی جوابی کارروائی کے دوران روسی ساختہ اینٹی ائیرکرافٹ سسٹم ایس-400 کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ آدم پور بیس کو بھارتی فضائیہ کے لیے ایک اہم اسٹریٹیجک مقام سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ نہ صرف سخوئی اسکواڈرن کا مرکز ہے بلکہ سرحد سے صرف 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
ڈیفنس ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنے اہم ائیر بیس پر جدید روسی دفاعی نظام کی تباہی، بھارتی دفاعی حکمتِ عملی کے لیے ایک شدید دھچکا ہے۔ اس واقعے کے بعد خطے میں طاقت کا توازن بظاہر پاکستان کے حق میں جھکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے اپنے جے ایف-17 تھنڈر طیاروں میں ہائپرسونک میزائل ٹیکنالوجی کو کامیابی سے شامل کر لیا ہے، جس سے نہ صرف پاکستانی فضائیہ کی حملہ آور صلاحیت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے بلکہ اب وہ بھارت کے اندر گہرائی تک مؤثر حملہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
بلغاریہ ملٹری ریویو نے یہ امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ پاکستان نے ممکنہ طور پر چین کے ہائپرسونک میزائل کا مقامی ماڈل تیار کر لیا ہے، جو انتہائی تیز رفتاری اور طاقت کے ساتھ ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایس-400 سسٹم، جو دنیا کے جدید ترین ائیر ڈیفنس سسٹمز میں شمار ہوتا ہے، خاص طور پر سچوریشن اٹیک (یعنی بیک وقت کئی میزائلوں سے حملہ) یا اس کے ریڈار اور کمانڈ یونٹس کو نشانہ بنائے جانے کی صورت میں کمزور پڑ جاتا ہے — اور پاکستانی حملے میں یہی حکمتِ عملی استعمال کی گئی۔
یہ حملہ نہ صرف دفاعی نظام کی تباہی تھا بلکہ ایک علامتی پیغام بھی تھا: پاکستان نہ صرف اپنی سرحدوں کی حفاظت کر سکتا ہے بلکہ دشمن کے اندر گہرائی تک جا کر بھی مؤثر حملہ کر سکتا ہے۔ یہ پیغام بھارت کی دفاعی سوچ اور پالیسیوں پر دور رس اثرات ڈال سکتا ہے۔
امریکی صحافیوں نے بھی اس صورتحال کو پاکستان کی کامیاب حکمت عملی قرار دیتے ہوئے بتایا ہے کہ میزائل حملوں کے بعد بھارت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا، جس کے بعد فوری سیزفائر کا اعلان کیا گیا — جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کا بھی کردار بتایا گیا۔