اسلام آباد: جسٹس شاہد وحید کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا تین رکنی بینچ 15 اپریل کو خیبر پختونخوا کی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تقرری کے کیس کی سماعت کرے گا ۔
یہ کیس انتظامی بحران کو اجاگر کرتا ہے جو گزشتہ دو سال سے 34 میں سے 25 یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود کہ صوبائی حکومتوں کو ان اہم عہدوں کو چھ مہینے سے زیادہ خالی نہیں چھوڑنا چاہیے، وائس چانسلرز کی تقرری میں تاخیر نے تعلیمی اداروں کو مشکل میں ڈال دیا ہے ۔
تقرر میں تاخیر کے سبب انتظامیہ اور مالی امور میں بڑے بحران پیدا ہو گئے ہیں۔ طلباء کو اپنی ڈگریز کی تصدیق میں مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ موثر قیادت نہ ہونے کی وجہ سے بدعنوانی کی راہیں کھل گئی ہیں۔ یونیورسٹیز طاقتور طبقے کے لیے ملازمت کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ اس صورتحال نے پورے تدریسی شعبے کو دباؤ میں ڈال دیا ہے اور مزید تاخیر خیبر پختونخوا میں اعلیٰ تعلیم کے نظام کو مکمل طور پر تباہ کر سکتی ہے ۔
خیبر پختونخوا میں یونیورسٹیز، جن میں سے بہت سی تنازعات والے علاقوں میں واقع ہیں، شدید مالی بحران اور انتظامی عدم استحکام کا شکار ہیں۔ اساتذہ نے شفافیت کی کمی اور ناکافی فنڈنگ کو بڑے مسائل کے طور پر اجاگر کیا ہے۔ مزید یہ کہ وائس چانسلرز کی مسلسل غیر موجودگی امن و امان کے لیے خطرہ ہے، کیونکہ کچھ علاقوں میں ہاسٹلز مبینہ طور پر بدعنوان عناصر کے محفوظ ٹھکانے بن گئے ہیں ۔
تعلیمی ماہرین اور اساتذہ اب سپریم کورٹ سے انصاف کی امید رکھتے ہیں جو شفاف، میرٹ پر مبنی اور بروقت تقرریوں کے لیے راہ ہموار کرے گی۔ ان تقرریوں کو یقینی بنانے کا فیصلہ خیبر پختونخوا میں اعلیٰ تعلیم کے مستقبل پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے ۔
یہ مسئلہ مختلف حکومتوں کے فیصلوں سے پیدا ہوا۔ 2022 میں سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے ان عہدوں کے لیے اشتہار دیا، لیکن امیدواروں کے انٹرویوز نہیں کرائے گئے۔ اس کے بعد نگراں حکومت نے انٹرویو مکمل کیے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی منظوری کے بعد امیدواروں کے پینل تیار کیے۔ تاہم، جون 2024 میں آنے والی پی ٹی آئی حکومت نے ان سفارشات کو مسترد کر دیا اور عہدوں کے لیے دوبارہ اشتہار دیا۔ اس کے نتیجے میں قانونی چیلنجز پیدا ہوئے اور پشاور ہائی کورٹ میں درخواست گزاروں کے حق میں فیصلے کیے گئے ۔