پشاور( خالد خان ) کسی بھی قوم کی بقا اور شناخت اس کی تاریخ، ثقافت اور تعلیمی اداروں سے جڑی ہوتی ہے ۔ تاریخ کو مسخ کرنا یا کسی قوم کے علمی و فکری اثاثے پر سیاسی ایجنڈے کے تحت حملہ کرنا درحقیقت اس کی تہذیبی بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوشش ہوتی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سیاست بھی اسی رویے کی عکاس ہے، جو پشتون سماج کی روایات، اقدار اور علمی ورثے کو زہر آلود کرنے کے درپے ہے ۔
پشتونوں کی اصل طاقت ان کی اعلیٰ سماجی اور اخلاقی اقدار تھیں، مگر پی ٹی آئی کی سیاست نے ان اقدار کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ۔ ایک طرف پشتون نوجوانوں کو گمراہ کن نعرے دے کر تشدد اور انتہا پسندی کی راہ پر دھکیلا گیا، اور دوسری طرف پشتون ثقافت، زبان، تاریخ اور اداروں پر یلغار کی جا رہی ہے ۔ حالیہ مثال جامعہ پشاور کے شعبہ صحافت کا نام ایک ایسے صحافی کے نام سے منسوب کرنا ہے، جس کا خیبر پختونخوا، جامعہ پشاور اور یہاں کی صحافتی روایات سے کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا، مگر چونکہ وہ پی ٹی آئی کے سیاسی بیانیے کے قریب تھے، اس لیے انہیں زبردستی خیبر پختونخوا کے علمی منظرنامے پر مسلط کیا جا رہا ہے ۔
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے جامعہ پشاور کے شعبہ صحافت کو مرحوم صحافی ارشد شریف کے نام سے منسوب کرنے کے فیصلے نے نہ صرف صحافتی برادری بلکہ علمی حلقوں، اساتذہ اور پشتون قوم پرستوں میں شدید ردعمل پیدا کیا ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) کے صدر شمیم شاہد نے اس اقدام کو مضحکہ خیز اور غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ ایک طرف ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے، اور دوسری طرف خیبر پختونخوا حکومت محض ایک علامتی فیصلے کے ذریعے اپنی سیاسی اور حکومتی ذمہ داریوں سے جان چھڑا رہی ہے۔
یہ فیصلہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ خیبر پختونخوا کی صحافتی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے، جہاں سینکڑوں صحافیوں نے اپنی زندگیاں آزادی صحافت اور حق گوئی کے لیے قربان کیں۔ ایسے میں کسی ایسے شخص کے نام پر شعبہ صحافت کا نام رکھنا، جس کا یہاں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں، نہ صرف علمی طور پر غیر موزوں ہے بلکہ صحافتی شہداء کی قربانیوں کی نفی بھی ہے۔
جامعہ پشاور کے شعبہ صحافت کا قیام اور ترقی کئی نامور اساتذہ اور دانشوروں کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ پروفیسر عبدالہاشم خان، خان عبدالعلی خان، پروفیسر پریشان خٹک، اقتدار علی مظہر، ثناء اللہ خان، اور ڈاکٹر شاہجہان جیسے اساتذہ نے اس شعبے کی بنیادیں مضبوط کیں۔ اسی طرح، مرحوم رحیم اللہ یوسفزئی وہ نام ہیں جو بین الاقوامی سطح پر خیبر پختونخوا کی صحافت کی پہچان بنے ۔
اس کے علاوہ، دہشت گردی کے خلاف سچائی کی جنگ میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے پچاس سے زائد صحافی اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔ ان بے باک صحافیوں نے کسی سیاسی ایجنڈے کو فروغ نہیں دیا بلکہ آزادی صحافت اور عوام کے حقِ معلومات کے لیے اپنی جانیں دیں۔ اگر شعبہ صحافت کو کسی کے نام سے منسوب کرنا تھا، تو ان حقیقی ہیروز میں سے کسی کا انتخاب ہونا چاہیے تھا، نہ کہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کے حمایتی کا۔
یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ موجودہ صوبائی حکومت اپنے سیاسی مفادات کے تحت فیصلے کر رہی ہے۔ اگر صوبائی وزیر مینا خان آفریدی اور دیگر حکومتی شخصیات کو واقعی ارشد شریف سے عقیدت تھی، تو وہ ان کے نام پر ایک نیا صحافتی ادارہ یا ریسرچ سینٹر قائم کر سکتے تھے، جس سے نہ صرف مرحوم کو خراج تحسین پیش کیا جاتا بلکہ صحافتی طلبہ کے لیے تحقیق اور تربیت کے نئے مواقع بھی فراہم کیے جا سکتے تھے۔
صحافتی برادری اور پشتون قوم پرستوں نے اس فیصلے کے خلاف مزاحمت کا اعلان کر دیا ہے۔ عید الفطر کے بعد اس کے خلاف باقاعدہ تحریک شروع کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے، اور ممکنہ طور پر یہ ایک وسیع احتجاجی مہم میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس فیصلے کو زمینی حقائق اور تاریخی تناظر میں قبول نہیں کیا جا رہا۔
کسی بھی علمی ادارے یا اس کے شعبے کا نام کسی شخصیت سے منسوب کرنا محض ایک رسمی اقدام نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک فکری اور نظریاتی وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں صحافت کی تاریخ بہت وسیع اور گہری ہے، جس میں بے شمار ایسے نام شامل ہیں جو اس شعبے کے حقیقی معمار کہلانے کے حقدار ہیں۔ ایسے میں، اگر شعبہ صحافت کا نام تبدیل کرنا ناگزیر تھا، تو یہ فیصلہ خالصتاً علمی اور صحافتی بنیادوں پر ہونا چاہیے تھا، نہ کہ کسی مخصوص سیاسی بیانیے کو فروغ دینے کے لیے۔
اگر تعلیمی اداروں کو سیاسی ایجنڈوں کی بھینٹ چڑھایا گیا تو یہ صرف ایک یونیورسٹی یا ایک شعبے کا نقصان نہیں ہوگا، بلکہ پوری قوم کی فکری آزادی اور تعلیمی وقار داؤ پر لگ جائے گا۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ علمی اداروں کے فیصلے میرٹ، تحقیق اور فکری آزادی کی بنیاد پر کیے جائیں، نہ کہ وقتی سیاسی مفادات کے تحت۔