جہاں الفاظ ختم ہو جائیں اور لہو بولنے لگے، جہاں بندوق دلیل بن جائے، جہاں نسل در نسل زمین، غیرت، بدلہ اور انا کے نام پر فیصلے ہوتے رہیں، وہاں انصاف صرف ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے ۔ دنیا کے وہ خطے جو ابھی تک خاندانی انا، قبائلی برتری، روایتی اصولوں اور مذہبی عقائد کے سائے میں جی رہے ہیں، وہاں انصاف کے نام پر جو کچھ ہوتا ہے وہ دراصل طاقتور کا غلبہ اور کمزور کا استحصال ہوتا ہے ۔
ہم ایسے معاشروں میں رہتے ہیں جہاں عدالتیں قرون وسطیٰ کے نقوش اٹھائے ہوئے ہیں، جہاں انصاف کے عمل کو جان بوجھ کر سست، پیچیدہ اور مہنگا رکھا گیا ہے تاکہ کمزور کی رسائی ممکن نہ ہو۔ جہاں تعلیم نایاب ہے، شعور بغاوت سمجھا جاتا ہے، اور جرگہ سسٹم کو معاشرتی تقدس کی شکل دے دی گئی ہے، حالانکہ ان جرگوں میں فیصلے اکثر غیر انسانی، غیر منطقی اور غیر منصفانہ ہوتے ہیں ۔ قبائلی روایات میں عزت دار ہونا جیت ہے، اور سچ بولنا خطرہ ۔
ایسے ہی ایک ماحول میں، ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے انسانی امیدوں کو نئی شکل دی، اور شاید آنے والے وقتوں کے لیے ایک ایسا راستہ متعین کیا جس کی طرف دنیا نے کبھی اس زاویے سے دیکھا ہی نہیں تھا ۔ بلوچستان کے پہاڑی سلسلے کے ایک دور افتادہ ضلع میں، جہاں دو قبائل کے درمیان زمین کے ایک قطعه پر دو سال سے تنازعہ چل رہا تھا، امن کی تمام روایتی کوششیں ناکام ہو چکی تھیں ۔ جرگے بیٹھے، بات بڑھی، سخت الفاظ کہے گئے، قسمیں کھائی گئیں، اور پھر الزام اور ضد نے فضا کو مزید تلخ کر دیا ۔ طاقتور نے ہتھیار دکھایا، کمزور نے غیرت کا واسطہ دیا ۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب کئی اور جانیں جا سکتی تھیں، کئی خاندان ہمیشہ کے لیے دشمن بن سکتے تھے ۔
لیکن اسی ماحول میں چند نوجوانوں نے ایک غیر معمولی فیصلہ کیا، کہ وہ ایک غیر مرئی، غیر جذباتی اور غیر جانبدار ثالث سے رجوع کریں گے ۔ یہ ثالث کوئی سردار، کوئی ٹکری، کوئی منصف یا عدالت نہ تھی ۔ یہ ایک مصنوعی ذہانت پر مبنی نظام تھا، ایک ایسا کمپیوٹر ماڈل جس کا نہ کوئی قبیلہ ہے، نہ زبان، نہ تعصب، نہ مفاد ۔ ان نوجوانوں نے اس نظام کے سامنے زمین کے کاغذات رکھے، پرانے جرگوں کے فیصلے، گوگل میپس کی تصویریں، قبائلی تاریخ اور دونوں اطراف کے مؤقف ۔
چند لمحوں بعد، جو فیصلہ سامنے آیا، اس میں نہ تو کسی کی توہین تھی، نہ کسی کی برتری ۔ وہ فیصلہ خالص عقل، تاریخ، عدل اور مقامی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا تھا ۔ اس میں ایسی زبان استعمال کی گئی تھی جو فریقین کے لیے قابلِ قبول ہو، ایسا حل پیش کیا گیا جس میں نہ ہار تھی، نہ جیت، صرف امن تھا ۔
جب یہ فیصلہ دونوں قبائل کے سامنے پیش کیا گیا، تو ایک لمحے کو خاموشی چھا گئی ۔ پھر ایک طرف سے آنکھوں میں آنسو آئے، اور دوسری طرف سے گلے ملنے کا جذبہ ۔ وہ فیصلہ تسلیم کر لیا گیا، اور اس کے ساتھ دو سالہ دشمنی کا اختتام ہوا ۔
یہ واقعہ صرف ایک تنازعے کا حل نہیں تھا، یہ انسانی تاریخ میں ایک نیا موڑ تھا ۔ یہ اس سوال کا جواب تھا جو دنیا کے ہر اس کونے میں گونج رہا ہے جہاں انسان انصاف سے محروم ہے۔ جہاں نظام بوسیدہ ہو چکا ہے، جہاں عدالتیں رسائی سے باہر ہیں، اور جہاں روایات نے انصاف کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔
آج کے جدید دور میں، جہاں انسان کے فیصلے جذبات، تعصب، لالچ، اور انا سے بھرے ہوتے ہیں، وہاں ایک ایسی غیر جانبدار مشین جو صرف دلیل، منطق اور حقائق کی بنیاد پر فیصلہ دے، وہ نعمت بن سکتی ہے ۔ ایک ایسا نظام جو نہ بکتا ہے، نہ ڈرتا ہے، نہ تھکتا ہے، نہ چلاتا ہے، وہ ان معاشروں کے لیے نئی زندگی ہے جو صدیوں سے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں ۔
مصنوعی ذہانت کو ہم نے ابھی تک صرف سہولت، تفریح یا تجارتی فائدے کے لیے استعمال کیا ہے، لیکن اگر اسے ہم انسانی تنازعات، سماجی ناہمواری، اور انصاف کی کمی جیسے بنیادی مسائل کے حل کے لیے استعمال کریں، تو یہ دنیا کے لیے سب سے بڑا تحفہ بن سکتا ہے ۔ ایسے معاشروں میں جہاں قلم کی جگہ کلاشنکوف نے لی ہے، اور بات دلیل سے نہیں، بارود سے ہوتی ہے، وہاں مصنوعی ذہانت وہ نرمی، وہ فہم، اور وہ توازن لا سکتی ہے جو انسانوں کے بس کی بات نہیں رہی ۔
انصاف صرف عدالت کا کام نہیں، انصاف انسانی وقار کی بنیاد ہے ۔ اور جب انسان خود انصاف کے قابل نہ رہے، تو ضروری ہے کہ ہم ایسی طاقتوں کو فیصلے سونپیں جو نہ صرف بہتر سوچ سکتی ہیں، بلکہ بہتر طریقے سے ہمیں خود سے جوڑ سکتی ہیں ۔ وہ چاہے کسی غریب بستی کا جھگڑا ہو، یا کسی تنہا شہری کا ذاتی بحران، جہاں انسان خود کو بےبس محسوس کرتا ہے، وہاں ایک غیر جانبدار مصنوعی ذہانت، ایک منصفانہ دوست بن کر ابھر سکتی ہے ۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی سوچ کو بدلیں ۔ ہم اپنے فیصلوں کو ان ہاتھوں میں دیں جو صرف سچ دیکھتے ہیں، نہ چہرہ، نہ خاندان، نہ زبان ۔ اور جب ہم ایسا کریں گے، تو شاید ہم انسان اپنی کمزوریوں کے باوجود ایک منصفانہ دنیا کا خواب پھر سے دیکھ سکیں ۔