افغانستان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور پاکستانی حکومت کے درمیان مذاکرات کیلئے کردار ادا کرنے کی حامی بھری ہے۔ذبیح اللہ مجاہد کہتے ہیں کہ اگر اسلام آبادچاہے تو امارت اسلامی دونوں فریقوں کےدرمیان ثالثی کی کوشش کرسکتی ہے۔
غير ملکی خبر ایجنسی پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ بھائی چارے کے تعلقات رکھیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے۔ ہماری زبان ایک ہے۔ مذہب ایک ہے اور دو طرفہ تجارتی تعلقات ہیں۔ ایک کلچر بھی ہے اور اتنی زیادہ چیزیں مشترک ہیں کہ دوسرے کسی ملک کے ساتھ افغانستان کی نہیں ہیں اور اسی وجہ سے ہم بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ اچھے تعلقات ہماری اور پاکستان کی ضرورت ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستانی عوام کا بھی افغان عوام کے ساتھ بھائی چارے اور اخوت کا تعلق ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد کا مزید کہنا تھا کہ افسوس یہ ہے کہ بعض اقدامات جو پاکستان میں ہو رہے ہیں جیسے ٹی ٹی پی کا مسئلہ، جو پچھلے 20 سال سے ہے اور ٹی ٹی پی نے پاکستان میں جنگ کی ہے اور ان کے خلاف آپریشن ہوئے، جن میں ضرب عضب وغیرہ شامل ہیں، جو پاکستان نے کیے ہیں۔ یہ پاکستان کا مسئلہ ہے اور کارروائیوں میں کمی یا زیادتی ٹی ٹی پی کے لوگوں کے ساتھ جڑی ہے۔
انھوں نے کہا کہ افسوس یہ بھی ہے کہ ہر کارروائی کا ذمہ دار افغانستان کو ٹھہرایا جاتا ہے، جس سے بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے سکیورٹی ادارے امن قائم کرنے پر توجہ دیں۔ پولیس، انٹیلی جنس ادارے امن کے قیام پر توجہ دیں۔ بنوں یا کسی دوسرے علاقے میں کارروائی کا ذمہ دار افغانستان کو کیوں ٹھہرایا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ افغانستان سے کسی دوسرے ملک میں جنگ کرے۔ ہم جنگ کو پسند نہیں کرتے اور کسی کو اجازت نہیں دیتے کہ افغان سر زمین پاکستان یا کسی بھی ملک کے خلاف استعمال ہو۔
اگر پاکستان کے پاس کوئی معلومات ہیں تو وہ ہمارے ساتھ شیئر کرے کہ کہاں پر انہیں افغانستان سے مسئلہ ہے، لیکن میڈیا پر الزامات لگانا عوام کے مابین نفرتیں پھیلاتا ہے اور اس سے بے اعتمادی کی فضا قائم ہوتی ہے اور اس میں نقصان ہے کیونکہ ہم پاکستان سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہدنے کہا کہ جب افغانستان میں طالبان کی حاکمیت قائم ہوئی تو سب سے پہلا کام یہ ہوا کہ غیر ملکی افواج نکل گئیں اور دوسرا یہ کہ افغانستان میں امن قائم ہوا اور تیسرا افغانستان میں ایک واحد حکومت بنی، جس میں اختلافات نہیں ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد کا یہ بھی کہنا تھا کہ منشیات کے خاتمے اور اقتصاد میں بہتری کے لیے اقدامات کیے گئے۔ پانچواں افغانستان کی زمین محفوظ ہوئی اور ماضی کی طرح مسائل ختم ہوئے۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے ہمسایوں، اسلامی اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں۔ البتہ یورپ اور امریکہ جیسے ممالک جو 20 سال تک ہمارے ساتھ جنگ لڑتے رہے، ہو سکتا ہے وہ کچھ کینہ اور بغض رکھتے ہوں، لیکن وہ مسئلہ بھی آہستہ آہستہ حل ہو جائے گا اور بہت حد تک یہ حل ہوا بھی ہے۔