اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر تیسری سماعت کے موقع پر بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں7 رکنی بینچ نے آج درخواستوں پر سماعت کا آغاز کیا، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بینچ کا حصہ تھے۔ سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آگئے اور وفاقی حکومت کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھادیا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت پر جسٹس منصورعلی شاہ نے پوچھا تھا کہ مجھ پر اعتراض تو نہیں، میں نےکہا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض نہیں ہے، تاہم اب مجھے ہدایت ہےکہ جسٹس منصورعلی شاہ بینچ کا حصہ نہ ہوں۔ چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ آپ کی مرضی سے بینچ نہیں بنایا جائےگا، کس بنیاد پر وفاقی حکومت جسٹس منصور پر اعتراض اٹھا رہی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے اعتراض اٹھایا گیا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جس جج پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے ان کی اہلیت پرکسی کو شک نہیں، حکومت نے پہلے بھی اس قسم کے اعتراضات اٹھائے ہیں، الیکشن کیس میں 90 دنوں پرکسی نے اعتراض نہیں کیا، بس بینچ پر اعتراض کیا گیا، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ ایک درویش صفت انسان ہیں، کیا جسٹس منصور، جسٹس جواد ایس خواجہ کو فائدہ دیں گے؟ کیا حکومت پھر بینچ کو متنازع کرنا چاہتی ہے؟ الیکشن کے حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر عدالت نے سخت ایکشن سے گریز کیا، سپریم کورٹ چھڑی کا استعمال نہیں کر رہی مگر دیگر لوگ کس حیثیت میں چھڑی کا استعمال کر رہے ہیں؟
جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا، ان کا کہنا تھا کہ میں مزید اس بینچ کا حصہ نہیں رہ سکتا،سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ میرے رشتہ دار ہیں۔ اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ آج عدالتی تاریخ کا سیاہ دن ہے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق کا کیس ہے، بینچ پر اعتراض نہیں بنتا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم ابھی اٹھ رہے ہیں، آپس میں مشاورت کے بعد آگےکا لائحہ عمل طے کریں گے۔ سپریم کورٹ کے ججز کمرہ عدالت سے اٹھ کر چلےگئے۔