Latest Urdu news from Pakistan - Peshawar, Lahore, Islamabad

آرمی چیف توسیع کیس۔حکومت کو مسئلہ حل کرنے کیلیےکل تک کی مہلت

 آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے کیس میں سپریم کورٹ نے حکومت کو کل تک کوئی حل نکالنے کی مہلت دیدی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جب کہ اٹارنی جنرل پاکستان نے دلائل دیے۔

سماعت کے  آغاز سے پہلے بیرسٹر فروغ نسیم نے کمرہ عدالت میں وکالت نامہ جمع کروایا جب کہ سماعت کے دوران عدالت نے دو مرتبہ وقفہ بھی لیا۔سپریم کورٹ نے طویل سماعت کے بعد اسے کل صبح تک ملتوی کردیا۔  چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہاکہ جائیں آپ کے پاس دو دن ہیں،کل تک مسئلے کاحل نکالیں ورنہ ہم اپنی ڈیوٹی پوری کریں گے۔

کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ آرمی آفیسرکے حلف میں ہے کہ اگر جان دینی پڑی تو دے گا، یہ بہت بڑی بات ہے،میں خود کو کسی سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں کروں گا یہ جملہ بھی حلف کا حصہ ہے، بہت اچھی بات ہے اگر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیا جائے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کررہا ہے دیگر ججوں میں جسٹس مظہرعالم خان میاں خیل اور جسٹس سید منصورعلی شاہ شامل ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہاکہ وفاقی حکومت آرمی سے متعلق قواعداور ضوابط بناسکتی ہے ،اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرمی کا ادارہ پوری دنیا میں کمانڈ کے ذریعے چلتا ہے جس پرجسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہم اس کے بارے میں جانتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آرمی ایکٹ میں کسی بھی افسر کی مدت ملازمت کا ذکر ہے؟ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مدت ملازمت کا ذکر رولز میں ہے ایکٹ میں نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آرمی ایکٹ میں مدت اور دوبارہ تعیناتی کا ذکر نہیں،آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا بھی ذکر ایکٹ میں نہیں،اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ فوج کوئی جمہوری ادارہ نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جب قانون میں ریٹائرمنٹ کا لفظ آتا ہے تو اس میں مدت کا بھی تعین ہوتا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کی مدت کے بارے میں بھی بتائیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اس کی طرف بھی آؤں گا۔

اس سے قبل  جسٹس منصور علی شاہ  نے استفسار کیا کہ چیف آف آرمی اسٹاف میں اسٹاف کا مطلب کیا ہے،خالی چیف آف آرمی بھی تو ہوسکتا تھا جس پر اٹارنی جنرل کاکہناتھاکہ اس بارے میں مجھے علم نہیں، پڑھ کر بتاسکتا ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ایکٹ میں کوئی ایسی بات ہے کہ مدت ملازمت میں توسیع دی جائے؟ کوئی ایسی چیز دکھائیں جس سے توسیع دینا واضح ہوسکے۔

اٹارنی جنرل کاکہناتھاکہ ایسی پروویژن ہے کہ مدت ملازمت میں توسیع دی جائے۔ اس پر جسٹس منصور کاکہناتھاکہ آپ جس کا حوالہ دے رہے ہیں وہ رولز ہیں ہمیں ایکٹ دکھائیں، اگر میں کمیشنڈ افسر بن جاتا ہوں تو کیا میں کہوں گا کہ تاحیات کمیشنڈ افسر ہوں ؟ ہم کنفیوز ہورہے ہیں ایک شخص کو بھرتی کیا جا رہا ہے لیکن اس کی ریٹائرمنٹ کا علم نہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.