Latest Urdu news from Pakistan - Peshawar, Lahore, Islamabad

سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن پر فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی

اسلام آباد(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے وزیراعلی پنجاب کے الیکشن پر ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف درخواست کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی ہے۔
وزیراعلی کے انتخاب کے معاملے پر ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف درخوآست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ساڑھے 5بجے بیٹھ کر فیصلہ کریں گے کہ فل کورٹ بنانا ہے یا یہی بینچ سماعت کرے گا۔ فیصلہ آج ہی مشاورت کے بعد ہوگا ۔
اس سے قبل سماعت کے آغاز پر سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی روسٹرم پر آ گئے اور موقف اپنایا کہ موجودہ صورتحال میں تمام بار کونسلز کی جانب سے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔لطیف آفریدی نے کہا کہ کرائسز بہت زیادہ ہیں۔ سسٹم کو خطرہ ہے۔ آرٹیکل 63اے کی تشریح پر نظرثانی درخواست مقرر کی جائے اور آئینی بحران سے نمٹنے کے لیے فل کورٹ بنایا جائے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ سب کا بہت احترام ہے۔ آپ کے مشکور ہیں کہ معاملہ ہمارے سامنے رکھا۔ آفریدی صاحب، یہ کیس ہماری آرٹیکل 63اے کی رائے کی بنیاد پر ہے۔ ہم فریقین کو سن کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ یکطرفہ فیصلہ نہیں کر سکتے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 10سابق صدور کے کہنے پر فیصلہ نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف کو سننا بھی ضروری ہے۔سابق صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیکر تمام مقدمات کو یکجا کر کے سنا جائے۔
اسی دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس کیس کا براہ راست تعلق ہمارے فیصلے سے ہے۔ہم چاہیں گے فریقین ہماری رہنمائی کریں۔ تاہم علی ظفر نے سابق صدور سپریم کورٹ بار کے مطالبے پراعتراض اٹھا دیا ۔ اور کہا کہ ہمارے کسی سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔
اس دوران چیف جسٹس کا پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ ہوا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے پاس کرسی تو ہے ناں۔ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سر کرسی کی کوئی بات نہیں۔ کرسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ ہم نے صبح درخواست جمع کروائی تھی اسے بھی سنا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو اسٹیک ہولڈرز ہیں ان سب کو سنا جائے گا۔لطیف آفریدی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیلیں بھی زیر التوا ہیں۔ آئینی بحران سے گریز کیلئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
بحران گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ پورا سسٹم داؤ پر لگا ہوا ہے۔ سسٹم کا حصہ عدلیہ اور پارلیمان بھی ہیں۔ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر نے بھی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت سے فل بینچ بنانے کی استدعا کی تو عدالت نے استفسار کیا کہ کن نکات پر فل کورٹ سماعت کرے۔
عرفان قادر نے کہا کہ آئین کی دفعہ 63اے کے حوالے سے آپ اپنے حکم نامے کا پیرا گراف نمبر 1 اور 2پڑھ لیں جس سے سب باتیں کلیئر ہوجائیں گی۔عرفان قادر نے کہا کہ صدر مملکت نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا ریفرنس بھیجا۔ آرٹیکل 63 اے کو الگ کر کے نہیں پڑھا جاسکتا۔ سیاسی جماعت کو ہدایات پارٹی سربراہ دیتا ہے۔پارلیمانی جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کا اہم کردار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتوں کی کمزوری سے جمہوری نظام خطرے میں آسکتا ہے۔ پارٹی پالیسی سے انحراف نظام کیلئے کینسر کے مترادف ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو ارکان اسمبلی میں موجود ہوتے ہیں صرف وہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی میں فرق ہے۔ کیا ڈیکلریشن اور پارلیمانی پارٹی کو ہدایات ایک ہی شخص دے سکتا ہے؟۔ دوران سماعت وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ میں نے اپنا جواب عدالت میں جمع کروا دیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ میں ہمارے فیصلے کے کس حصے کا حوالہ دیا۔ ڈپٹی سپیکر نے ہمارے جس پیراگراف پر انحصار کیا وہ کہاں ہے؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین ڈائریکشن اور ڈیکلریشن پر واضح ہے۔ پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی کا کردار الگ الگ ہے۔
حمزہ شہباز کے وکیل نے غیر متعلقہ جواب دیا تو ججز نے انہیں پہلے بنیادی سوال کا جواب دینے کی ہدایت کی۔جسٹس منیب اختر نے وکیل سے کہا کہ جو نقطہ آپ اٹھانا چاہ رہے ہیں وہ ہم سمجھ چکے ہیں۔ مناسب ہوگا اب کسی اور وکیل کو موقع دیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی ہدایت اور ڈیکلریشن دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلے کے جس نقطے کا حوالہ دیا وہ بتائیں۔حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ مسترد ہوجائے گا، یہ نقطہ ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہو سکتا ہے؟۔ فیصلے کے کون سے حصے پر ڈپٹی سپیکر نے انحصار کیا اس کابتائیں۔حمزہ شہباز کے وکیل نے بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر نے فیصلے کے پیراگراف نمبر تین پر انحصار کیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ14ویں ترمیم میں آرٹیکل 63اے شامل کیا گیا۔ آپ کے سیاسی پارٹی کے سربراہ کے بارے میں کیا قانونی دلائل ہیں؟۔ منصور اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 63اے14ویں ترمیم سے آئین میں شامل کیا گیا۔ لیکن18ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل63اے کی مزید وضاحت کی گئی۔
جسٹس شیخ عظمت سعید کے8رکنی فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی پالیسی میں ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق دو الگ اصول ہیں۔ 18ویں ترمیم سے قبل آرٹیکل 63اے پارٹی سربراہ کی ہدایات کی بات کرتا تھا۔ 18ویں ترمیم کے بعد پارٹی لیڈر کو پارلیمانی پارٹی سے بدل دیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پہلے پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات میں ابہام تھا۔ ترمیم کے بعد آرٹیکل63اے میں پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کا اختیار ہے۔ عدالتی فیصلہ خلاف آئین قرار دینے کے نقطے پر رولز موجود ہیں۔
وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ آرٹیکل63اے پر فیصلہ ماضی کی عدالتی نظیروں کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ آرٹیکل 63اے کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دے۔ اگر پانچ رکنی بینچ کو لگتا ہے ماضی کا عدالتی فیصلہ غلط تھا تو فل بینچ ہی فیصلہ کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت میں سینیئر پارلیمینٹرینز نے موقف اختیار کیا تھا کہ پارٹی سربراہ آمر ہوسکتا ہے۔ اس کے کردار کو کم کرنے کے لیے پارلیمانی پارٹی کے لیڈر کو کردار بھی دیا گیا۔ پاکستان میں موروثی پارٹیاں ہیں۔ ایک سربراہ باہر بیٹھ کر کیسے ہدایات دے سکتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمانی نمائندوں کو آئین میں اختیارات دیے گئے ہیں ۔ اسمبلی میں کس کو ووٹ دینا ہے اس کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی کرتی ہے۔ صدارتی ریفرنس میں ارکان پارلیمنٹ کو پارٹی ہیڈ کی ڈکٹیٹر شپ سے بچایا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی ہیڈ کی ڈکٹیٹر شپ سے متعلق کئی ارکان نے شکایات کیں۔ پارٹی ہیڈ کو بھی پارلیمانی پارٹی کی رائے سننی ہوگی۔وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ4سیاسی جماعتوں کے سربراہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں۔ جے یو آئی (ف) پارٹی سربراہ کے نام پر ہے لیکن مولانا فضل الرحمن پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں۔ عوام میں جواب دہ پارٹی سربراہ ہوتا ہے پارلیمانی پارٹی نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی سربراہ کا کردار بہت اہم ہے۔ منحرف رکن کے خلاف پارٹی سربراہ ہی ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ ووٹ کس کو ڈالنا ہے ہدایت پارلیمانی پارٹی دے گی ۔ ریفرنس سربراہ بھیجے گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ سیاسی جماعت اصل میں وہی ہوتی ہے جو پارلیمانی پارٹی ہو۔ عوام جسے منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتی ہے ان ارکان کے پاس ہی مینڈیٹ ہوتا ہے۔
برطانیہ میں تمام اختیارات پارلیمانی پارٹی کے ہوتے ہیں۔ برطانیہ میں پارلیمان کے اندر پارٹی سربراہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر نے عدالتی فیصلہ درست مانتے ہوئے ہی رولنگ میں اس کا حوالہ دیا تھا۔
جس پر ڈپٹی سپیکر کے وکیل نے کہا کہ ووٹ مسترد کرنے کی حد تک فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یعنی ووٹ مسترد ہونے کی حد تک عدالتی فیصلہ تسلیم شدہ ہے۔ سوال صرف ڈپٹی سپیکر کی تشریح کا ہے کہ درست کی یا نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر نے ہمارے فیصلہ پر انحصار کر کے فیصلے سے آگے بڑھ کر رولنگ دی۔
سوال یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلہ کہ درست تشریح کی۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے کی غلط تشریح تو نہیں کی۔
سماعت کے دوران وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کارروائی میں ایک بات پھر مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ منصور اعوان نوجوان اور انکے کندھوں پر بہت بوجھ ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ منصور اعوان بہت بہترین دلائل دے رہے ہیں۔ عدالت نے منصور اعوان کو وزیر قانون سے ہدایات لینے سے روک دیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ منصور اعوان وزیراعلی پنجاب کے وکیل ہیں۔ وہ وزیر قانون سے کیسے ہدایات لے سکتے۔ سوالات سے پریشان نہ ہوں۔ دلائل جاری رکھیں۔منصور اعوان نے کہا کہ عمران خان کی ہدایات کو الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا۔ الیکشن کمیشن کا اس معاملہ پر فیصلہ کیا۔ جس پر جسٹس اعجاز الااحسن نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے معاملہ سے تعلق کیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی دیا ہے۔ آپ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی پڑھ لیں۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تمام پارٹی اراکین کو چوہدری شجاعت کا خط اجلاس شروع پونے سے پہلے موصول ہو گیا تھا۔
منصور اعوان نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کے پہلے انتخابات میں پی ٹی آئی کو ہدایات عمران خان نے دی تھیں۔ الیکشن کمیشن نے عمران خان کی ہدایات پر ارکان کو منحرف قرار دیا۔ منصور اعوان نے عمران خان کی ایم پی ایز کو ہدایت بھی عدالت میں پیش کر دی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعلی پنجاب انتخاب کے پہلے اور اب کے کیس فرق ہے۔ الیکشن کمیشن میں ارکان کا موقف تھا کہ انہیں پارٹی ہدایت نہیں ملی۔ موجودہ کیس میں ارکان کہتے ہیں پارلیمانی پارٹی نے پرویز الٰہی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارلیمانی پارٹی ہدایت کے نقطے پر کسی فریق نے اعتراض نہیں کیا۔ منحرف ارکان اور اس کیس کے حقائق مختلف ہے۔ منحرف ارکان کا موقف تھا ہمیں شوکاز اور ہدایات نہیں ملی۔ یہاں پر ایشو مختلف ہے۔
جسٹس اعجاز الااحسن کا کہنا تھا کہ تمام10ممبران نے ووٹ کاسٹ کیا۔ کسی رکن نے دوسری طرف ووٹ نہیں۔ تمام ارکان نے ایک طرف ووٹ ڈالا۔ دس ارکان میں میں کسی نے نہیں کہا کہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس نہیں ہوا۔
واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی میں وزیراعلی کے انتخاب کیلئے ہونے والی ووٹنگ میں چوہدری پرویز الٰہی نے 186ووٹ حاصل کیے ۔ حمزہ شہباز کو 179ووٹ ملے تھے ۔
ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے چوہدری شجاعت کے خط کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ ق کے10ارکان کے ووٹ مسترد کر دیے ۔ جس کے بعد پرویز الٰہی کے ووٹوں کی تعداد 176جبکہ حمزہ شہباز کے ووٹوں کی تعداد 179ہو گئی۔
مسلم لیگ ق کے 10ارکان کے ووٹ مسترد ہونے کے بعد حمزہ شہباز کو تین ووٹوں کی برتری سے کامیاب قرار دیا گیا تھا۔ جس کے بعد تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری نے23جولائی کو درخواست منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل دیا۔ جس میں ڈپٹی سپیکر کو ریکارڈ سمیت طلب کیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے۔ تاہم عدالت نے سماعت پیر تک ملتوی کی تھی ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.