ڈیرہ اسماعیل خان، خیبر پختونخوا: ایک باپ نے پنچایت کے ظالمانہ فیصلے کے بعد اپنی 13 سالہ بیٹی کو ’ونی‘ کرنے کے فیصلے کو برداشت نہ کر سکا اور زہریلی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ یہ واقعہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے گاؤں بگوانی میں پیش آیا، جہاں پنچایت کے نام پر انصاف کے بجائے ظلم کی داستان رقم ہوئی۔
پولیس کے مطابق، یہ واقعہ ایک شادی کی تقریب کے دوران پیش آیا جب عادل نامی شخص کے بھانجے کو ملزم کی بیٹی کے ساتھ ’نازیبا حرکات‘ کرتے ہوئے پایا گیا۔ معاملہ جرگے کے سامنے آیا تو عادل کے بھانجے پر چھ لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔ تاہم، ملزم نے عادل پر دباؤ ڈالا کہ ’میری بیٹی کی عزت آپ کے گھر میں خراب ہوئی ہے‘۔ اس کے بعد مقامی پنچایت نے عادل کو بُلا کر زبردستی اس کی 13 سالہ بیٹی کو ونی کرنے کا بیان تحریر کروایا۔
پنچایت کے فیصلے کے مطابق، عادل کی بیٹی کی ملزم کے بیٹے سے منگنی کر دی گئی اور جلد نکاح اور رخصتی کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ عادل نے پنچایت کے اس فیصلے کو دل برداشتہ ہو کر قبول کیا اور آخرکار زہریلی گولیاں کھا کر خودکشی کر لی۔
سوشل میڈیا پر عادل کا ایک آڈیو پیغام بھی وائرل ہو رہا ہے، جس میں وہ اپنی بیٹی کے ونی کرنے پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا، ’ہمارا کوئی قصور نہیں تھا، میں نے انھیں نہیں بخشا، آپ بھی انھیں چھوڑنا نہیں۔‘ عادل نے الزام لگایا کہ انھیں زبردستی اٹھا کر لے جایا گیا اور ان پر دباؤ ڈالا گیا۔ انھوں نے کہا، ’میری بیٹی پر کوئی آنچ نہ آئے، میں قربان ہو جاؤں۔‘
خیبر پختونخوا پولیس نے اس واقعے پر فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا نے اس معاملے پر فوری نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ پولیس حکام کو ہدایات جاری کیں۔ پولیس کے مطابق، کمسن بچی کو بازیاب کر کے اس کے ورثا کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ عادل سے جو سات لاکھ روپے لیے گئے تھے، وہ بھی برآمد کر لیے گئے ہیں۔
ونی یا سوارہ ایک ایسی ظالمانہ رسم ہے جو صدیوں سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں رائج ہے۔ اس رسم کے تحت دو خاندانوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے ایک لڑکی کو بطور جرمانہ دوسرے خاندان کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ یہ رسم نہ صرف لڑکی کی مرضی کے خلاف ہوتی ہے بلکہ اسے ایک ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور کرتی ہے۔
پاکستان میں ونی کے خلاف قوانین موجود ہیں، لیکن دور دراز علاقوں میں یہ رسم اب بھی جاری ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے 27 اکتوبر 2021 کو سوارہ کی رسم کو اسلامی شریعت کے منافی قرار دے دیا تھا، لیکن اس کے باوجود یہ رسم جاری ہے۔
یہ واقعہ ایک بار پھر ہمیں اس بات پر سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کب تک معصوم لڑکیوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جائے گا؟ کب تک پنچایت کے نام پر انصاف کے بجائے ظلم کی داستانیں رقم ہوتی رہیں گی؟ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ وہ ایسی ظالمانہ رسومات کے خلاف سخت اقدامات اٹھائیں اور معصوم بچیوں کو ان کے بنیادی حقوق دلانے کے لیے کام کریں۔