کیا چیلنجز خیبرپختونخوا کی نئی حکومت کو درپیش ہیں.اس حوالے سے پی ٹی آئی رہنما اور سابق وزیر خزانہ خیبر پختونخوا تیمور سلیم جھگڑا نے کراس ٹاک کے میزبان وقاص شاہ سے بات چیت کی ہے
اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے تین سالا اقتدار میں ایں این ایچ پی کی مد میں صوبے کو 104 ارب ملے تھے۔ لیکن پچھلے دو سال میں صرف 4 ارب روپے ملے ہیں۔جو کہ بہت کم ہیں۔انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد قبائلی اضلاع کو ہر سال 100 روپے ملنے تھے ، عمران خان کی دور حکومت میں تین سال میں سیلری اور نان سیلری کی مد میں پورے پیسے ملتے تھے جبکہ ترقیاتی بجٹ میں بھی 100 ارب روروپے ملے تھے لیکن پی ڈی ایم کی حکومت کے دو سال میں121 ارب روپے کے بجٹ میں صرف 6۶ ارب روپے ملے ہیں جبکہ ترقیاتی بجٹ میں بہت کم پیسے ملے ہیں۔
صوبے کے حوالے سے بات کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ آئندہ صوبے میں دو تین سال بہت مشکل ہوں گے کیوں کہ مرکز میں مینڈیٹ چور حکومت بیٹھی ہے۔ جو صوبے کو اس کا حق آسانی سے نہیں دے گئے۔مسلم لیگ ن کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں مسلم لیگ ن نے صرف 17 سیٹیں حاصل کی ہے۔ جبکہ صوبے میں اپوزیشن 16 سیٹیں جیت چکی ہے لیکن انہیں 30مخصوص نشیتں مل گئی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن مکمل طور پر پارٹی بن گئ ہے 2019 میں قبائلی اضلاع میں ہونے والے صوبائی الیکشن میں تین آزاد ارکان نے باپ پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور انہیں الیکشن کمیشن نے ایک مخصوص سیٹ دی لیکن اب وہی الیکشن کمیشن کہتی ہے کہ آپ لوگوں نے مخصوص نشستوں کیلئے لسٹ جمع نہیں کروائی تھی لہذٰا آپ کو یہ سیٹیں نہیں مل سکتی ہیں۔الیکشن کمیشن جب دھاندلی کیخلاف گئی تو خیبر پختونخوا کے ممبر نے میرے دلائل صرف اس بات پر سننے سے انکار کردئیے کہ جب آپ وزیر تھے تو آپ نے میرا کام نہیں کیا تھا۔
صوبے میں قرضے پر کراس ٹاک کے میزبان وقاص شاہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب ہم حکومت چھوڑ کر جارہے تھے تو صوبے پر ٹوٹل قرضہ 360 ارب روپے تھا اور اسی سال ٹوٹل بجٹ 1300 ارب روپے تھا، قرضہ ٹوٹل بجٹ کا 28 فیصد بنتا ہے پی ٹی آئی حکومت سے پہلے جب صوبے پر 100 ارب روپے قرض تھا تب بجٹ 130 روپے تھا۔ پنجاب میں قرضہ ٹوٹل بجٹ کا 45 فیصد بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے پر موجودہ قرضہ 560 ارب روپے ہیں جس میں دو سو ارب پی ڈی ایم کی دور حکومت میں بڑھے ہیں۔
ووٹوں کے حوالے سے جب ان سے بات کی گئی تو تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ ہمیں ووٹ نظریے اور صحت کارڈ پر ملے ہیں۔ صحت کا رڈ کے مہینے کا خرچہ 2.5 ارب روپے ہیں۔ صوبے کا سالانہ ٹوٹل خرچہ گیارہ سو ارب روپے ہیں جس میں صحت کارڈ کا28، 30 ارب روپے بنتا ہے۔ صحت کارڈ پر تنقید کرنےوالی بیوروکریسی کے افسران کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبے میں ٹوٹل ملازمین 6 لاکھ ہیں جس کی تنخواہوں میں نگران حکومت نے 110 ارب روپے کا اضافہ کیا جبکہ 4 کروڑ کی آبادی میں صحت پر سالانہ تیس ارب روپے خرچ ہورہے ہیں اور اسی نگران حکومت نے ایک مہینے میں 20 ارب روپے کا آٹا تقسیم کیا ہے۔مزید بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نگران حکومت پی ڈی ایم کی جماعتوں کا حصہ تھی۔ہر پارٹی کے ممبران نگران حکومت میں شامل رہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کیخلاف ہر قسم کے حربے کا استعمال کیا گیا، نہ ہمیں کوئی کمپئین کرنے دی گئی، نہ ہی ہمیں کوئی بینر لگانے دئیے گئے، اس کے باوجود مخالفین کو ہر حلقے میں تاریخی شکست ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے 25116 ووٹ تھے جو ٹوٹل 63 فیصد ووٹ بنتے ہیں اور پانچ ویں نمبر پر آنے والے کے 1616 ووٹ والے 25116 ووٹ دیکر جیتوایا۔ انہوں نے کہا کہ ٹوٹل 66 پولنگ اسٹیشن میں سے 63 پولنگ اسٹیشن پر ٹمپرنگ ہوئی ہے۔ ڈی سی اور ایس ایس پی آپریشن پشاور نے ہمارے ساتھ دھاندلی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریٹرنگ آفسر نے الیکشن کمیشن کے سامنے ریکارڈ پر جھوٹ بولا کہ گنتی تمام امیدواروں کے سامنے ہوئی اگرچے کمروں کی ریکارڈنگ موجود ہے کہ ہمیں اندر نہیں جانے دیا گیا، ہم نے دوبارہ گنتی کی درخواست دی لیکن ہماری درخواست نہیں مانی گئی اگرچے مانیٹرنگ افسران نے کہا کہ گنتی امیدواروں کے سامنے نہیں کی گئ ہے۔ آخر میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پشاو کے آٹھ حلقوں پرآٹھ مختلف ریٹرنگ افسران کے فیصلے کے ڈرافٹ ایک جیسے ہی ہیں۔