اسلام آباد (مدثر حسین) ویسے تو پاکستان اپنے قیام ہی سے ایک دائمی بحران کا شکار رہا ہے،لیکن بنگلہ دیش کی علیحدگی کے دور کے بعد موجودہ، دور ہر لحاظ سے ریاستی وجود کے لیے ایک بہت بڑے چیلنج کی شکل اختیار کرچکا ہے، معاشی بحران، سیاسی بحران،عدالتی بحران، پارلیمانی بحران، ائینی بحران، سماجی بحران ، مذہبی بحران، ابادی کا بحران، اخلاقی بحران، غرض جس جگہ بھی نظر جاتی ہیں، وہاں اپ کو ایک نہ ختم ہونے والا بحران نظر ائیگا۔ ایسا بھی نہیں کی یہ تمام بحران صرف پاکستان تک محدود ہیں، اور باقی ممالک بحرانوں سے نبردازما نہیں رہے ہیں، لیکن فرق صرف یہ ہے کہ باقی ممالک میں بحران ایک مخصوص مدت کے بعد عوامی شکایات اور ارباب اختیار کی توجہ سے حل ہوجاتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں ہر بحران اپنے تئیں نئے بچوں کو جنم دیتا ہیں۔
اج جس بحران نے پاکستان کے وجود کو سن1971 والی پوزیشن پر لاکھڑا کردیا ہے، وہ ہے شورش زدہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کے بڑھتے واقعات، لاقانونیت اور سول رائٹس کے مطالبات، برسوں سے ان علاقوں میں جاری جنگ نے عوام کو حکومت، اور نظام سے حد درجہ بدظن کر دیا ہیں، فوجی اپریشنز کے باوجود دہشتگردی کا بار بار ظہور اور اداروں کی لاتعلقی اور بے حسی نے مقامی لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا ہیں،ایسے میں کالعدم پشتون تحفظ مومنٹ کی عوامی عدالت اور بلوچ یک جہتی کمیٹی کا بیانیہ تمام تر سینسر شپ کے باوجود عوام میں جڑ پکڑ چکا ہیں، سٹرٹیجک باریکیوں سے نابلد عام لوگ منظور پشتین اور ماہ رنگ بلوچ کو اپنے امیدوں کا مرکز سمجھتے ہیں۔ ترجیحات سے عاری پی ڈی ایم پارٹ ٹو کی سرکار کے لیے سطحی اقدامات، اور بیانات کے زریعے عوامی اواز کو دبانا اب ممکن نہیں، ایک طرف تحریک انصاف نے اسٹیبلیشمنٹ کیساتھ لڑائی چھیڑ دی ہے تو دوسری طرف دہشتگردی عروج پر ہے، ان ٓحالات میں اگر ان پرامن اور عدم تشدد پر چلنے والی تنظیموں کے ساتھ بھی مزید جبر کا سلوک روا رکھا گیا تو خدشہ ہے کہ یہ تنظیمیں ، یا ان کے کچھ سادہ لوح کارکن مرکزی قیادت کی علم میں لائے بغیر غلط راستہ اختیار کرلیں، ویسے بھی خطے میں پاکستان کے خیرخواہ کم اور بدخوا زیادہ ہے، ان پاکستان مخالف قوتوں کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہیں، کہ وہ کسی کالعدم تنظیم کے بیانیے کی اڑ میں رہاستی بنیادوں کو مزید کھوکھلا کر دیں۔ نریندر مودی کا وہ بیان جس میں اس نے کہا تھا کہ پاکستان اپنے بوجھ تلے خود گر رہا ہیں، دشمن کی چالوں اور اپنوں کی حماقت کا واضح ثبوت ھے۔ دشمن سوشل میڈیا، سیاسی بحران اور نظام کی عدم ڈیلوری کا خوب فائدہ اٹھا رہا ہیں۔ تبھی تو مشرقی سرحد خاموش ، جبکہ اندرون ملک نظریاتی سرحدات پائمال ہو رہی ہیں۔ اسوقت پاکستان میں معاملات اس قدر گھمبیرشکل اختیار کر چکے ہیں، کہ انکا حل بھی کوئی اسان اور ٹائم باونڈ نہیں ہوسکتا، تاہم اگر بروقت صحیح فیصلے نہیں کیے گئے تو اگے جاکر کالعدم پشتون تحفظ موممنٹ اور بلوچ یک جہتی کمیٹی نظام کی بوسیدگی اور مظلومیت کے بیانیےکا فائدہ اٹھا کر ملک کے جغرافیے پر نئی لکیریں کھینچ سکتے ہیں، کالعدم پی ٹی ایم کی عدالت میں بھرپور عوامی شرکت اور وہاں کی گئ تقاریر موجودہ مایوسی کے بادل کو مزید گہرے کر رہے ہیں۔ ایسے میں ریاست کو حساس نہیں بلکہ کھلے دل سے کی گئ غلطیوں کا احساس کر کے پیش بندی کرنی ہوگی۔ اپ نام پر پابندی لگا سکتے ہیں لیکن سوچ اور نظریے پر نہیں، نظریے کو کاونٹر کرنے کے لیے سرجیکل طریقے سے مسلے کی تہہ تک پہنچنا ہوتا ھے۔ پاکستان کی ابادی کا بشتر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہیں۔ یہ نوجوان موجودہ نظام اور اقتدار کے لیے سیاسی پارٹیوں کی رسہ کشی سے تنگ اکر یا تو بیرون ملک بھاگ رہے ہیں، یا پھر اندرون ملک مایوسی کا شکار ہو کر جذباتیت کے سمندر میں ڈوب رہے ہیں۔ کالعدم پی ٹی ایم اور بلوچ یکجہتی کمیٹی اس مایوسی کا ردعمل ہیں۔
راقم خود بطور رپورٹر ان دونوں تنظیموں کے دھرنوں اور احتجاجی کیمپس کو کور کرچکا ہیں، پی ٹی ایم والے جتنے جذباتی ہیں، بلوچ یک جہتی کمیٹی والے اتنے ہی ہوشمندی سے معاملات چلاتے ہیں، جناب عالی بےشک انہیں امریکی، بھارتی یا افغان ایجنٹ بلاتے رہیں، لیکن اس سے گراونڈ پر کچھ بدلنے والا نہیں۔ اگر ریاست چاہے تو سنجیدہ مذاکرات کے زریعے منظور پشتین اور ماہ رنگ بلوچ کو ملک میں اتحاد و اتفاق کے لیے بھی امادہ جاسکتا ہے، مطالبات کے حل کے لیے ٹائم بھی مانگا جاسکتا ہے، انہیں مین سٹریم میں لایا جاسکتا ہے، ایجنٹ کہکر انہیں جٹھلانا یا بیرون ملک فنڈنگ کے نام پر بدنام کرنا فرنگیوں کا ازمایا ہوا ایک فرسودہ طریقہ ہیں، اب یہ طریقے مسائل کو حل نہیں بلکہ پیچیدگیوں کا شکار کر رہا ہے، ضرورت حالات کی سنگینی کا احساس کر کے، اپنے سیاسی ودیگر مفادات کو بالائے طاق رکھ کر کی ائین کے مطابق ملک چلانا ہے، اور یہ زمہ داری صرف سیاسی اشرافیہ،حکومت اور ریاستی اداروں کی ہیں۔ جس کے پاس جتنا اختیار ھے، اتنا ہی وہ حالات کو بہتر کرنے کا زمہ دار بھی ھے۔