پلوشہ شہرزاد اُس وقت سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز بنی، جب انھوں نے کراچی میں منعقدہ سیشن کے دوران مذہبی سکالر ڈاکٹر ذاکرنائیک سے سوال کیا کہ ہمارے معاشرے میں لوگ بہت مذہبی ہیں لیکن اس کے باوجود برائیاں پھیل رہی ہیں جیسے زنا، بچوں کیساتھ جنسی زیادتی، سود اور بھتہ خوری ، ہمارے علما کرام اس طرف خاص توجہ کیوں نہیں دے رہے؟
جس پر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے سوال میں تضاد ہے، ایک مذہبی معاشرے میں ایسا نہیں ہوسکتا، اگر آپ کا تعلق ایک مذہبی معاشرے سے ہے تو یہ وہاں نہیں ہوسکتا، اگر پھر بھی یہ برائیاں ہیں تو وہ معاشرہ مذہبی نہیں ہو سکتا ۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑگئی، کسی نے پلوشہ کو یہ سوال اٹھانے پر سراہا تو کئی نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
آئیے!آج آپ کی ملاقات پلوشہ شہرزاد سے کراتے ہیں اور لوگوں کے ذہنوں میں جو سوالات ہیں وہ ان کے سامنے رکھتے ہیں۔
1۔ سوال: پلوشہ شہرزاد آپ کا تعلق کہاں سے ہے اور کیا کرتی ہیں، مختصرا اپنا تعارف کیجئے؟
پلوشہ شہرزاد: یہ میرا قلمی نام ہے۔ شروع میں میرا خاندان میرے تعلیم کے حصول کے خلاف تھا جیسا کہ اکثر قدامت پسند ماحول میں ہوتا ہے۔ لہذا میں نے یہ قلمی نام اپنایا، جیسا کہ جین آسٹن نے کیا تھا۔ آسٹن نے اپنی تخلیقات کو "بائی اے لیڈی” کے فقرے کے تحت گمنام طور پر شائع کیا کیونکہ خواتین کے لیے اپنے ناموں سے شائع کرنا سماجی طور پر قابل قبول نہیں تھا۔ اس نے اس گمنامی کو تنقید سے بچنے کے لیے استعمال کیا جبکہ اس بات کو یقینی بنایا کہ اس کا کام سامعین تک پہنچ جائے۔ اسی طرح میں نے اپنی سرگرمی اور تحریر کو جاری رکھنے کے لیے اپنی اصل شناخت کو اپنے خاندان سے چھپانے کا انتخاب کیا اور لکھنا میرا ہمیشہ سے جنون رہا ہے۔ بنیادی طور پر میرا تعلق لکی مروت سے ہے لیکن میں اس وقت تعلیمی مقاصد کے لیے کراچی میں مقیم ہوں اور گورننس اور پبلک پالیسی کا طالب علم ہوں۔
-2سوال: ڈاکٹر نائیک سے آپ کا اصل سوال کیا تھا؟ آپ کے سوال پر ابہام یا تضادکا الزام لگایا جا رہا ہے؟
جواب: بنیادی طور پر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے میرے سوال سے پہلے وضاحت کی کہ جن لوگوں کا مرکز اللہ ہوتا ہے وہ ان کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ اس وضاحت نے میرے ذہن میں اسلامی معاشرے کا ایک نقشہ بنایا اور میرے ذہن میں اپنے علاقے کا خیال آیا۔ تو میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ میرا تعلق جس معاشرے سے ہے وہاں تمام مذہبی اجتماعات ہوتے ہیں ، خواتین بغیر کسی مقصد باہر نہیں نکلتیں، مرد نماز نہیں چھوڑتے، بلکہ ہر جمعرات کو شب جمعہ کے لیے مرکز جاتے ہیں اور حال ہی میں تبلیغی اجتماع کا انعقاد بھی کیا گیا۔ ہمارے لوگ مذہبی بہت ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے اسلامی معاشرے میں بہت زیادہ جرائم ہوتے ہیں، جیسے کہ بچوں سے زیادتی، بھتہ خوری، زنا، اور سود کا رواج، سوال یہ تھا کہ اسلامی سماجی ڈھانچہ کیوں ناکام ہو گیا اور ہمارے مذہبی رہنما ان مسائل کو کیوں اجاگر نہیں کرتے؟جہاں تک تضاد کی بات ہے تو میں نے پہلے سوال لکھ کر سوالیہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا اور اگر اس میں تضاد ہوتا تو وہ اسے مسترد کر دیتے۔ میں نے سوال سے پہلے یہ بھی التجا کی کہ جناب میری اردو کو معاف کر دیں کیونکہ یہ میری مادری زبان نہیں ہےاور بعد میں مجھے اپنے سوال کی وضاحت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جب میں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ میرے سوال کی نوعیت درست نہیں ہے، لیکن مسئلہ درست ہے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، تو میرے اردگرد کے لوگوں نے مجھ پر معافی مانگنے اور سوال واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا جو نامناسب تھا۔
3۔سوال: آپ اس سوال پر کیوں مجبور ہوئیں اور کس چیز نے آپ کو اتنا نڈر بنایا؟
جواب: ان مسائل کی وجہ سے ہونے والی چیزوں نے مجھے کافی عرصے سے اس مسئلے پر کام کرنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ واحد مسئلہ نہیں تھا جس کے بارے میں، میں نے بات کی ۔ میرے علاقے کے لوگ اس بات سے متفق ہوں گے کہ یہ مسائل وہیں پر برقرار ہیں۔ جب ہمت کی بات آتی ہے تو میرا اللہ پر پختہ یقین ہے۔ میری ماں ایک سخت خاتون ہے ، اس نے میری پرورش اور تعلیم کے لیے بہت جدوجہد کی اور والدین کے طور پر بہت زیادہ دباؤ برداشت کیا۔ میں ان کی پرورش کو کیسے ناکام ہونے دوں؟ میں قران کریم کی اس آیت وتعز من تشا و تذل من تشا پر پختہ یقین رکھتی ہوں اور اس کے علاوہ میرے لئے کسی چیز کی اہمیت نہیں۔
4۔سوال : آپ نے خاص طور پر مروت قبیلے کا ذکر کیوں کیا جبکہ یہ مسائل تو ہر جگہ ہیں؟ جیسا کہ کچھ عرصہ قبل قصور اور زینب کے واقعات پیش آئے تھے ؟
جواب: اول تو میرا اپنے لوگوں سے گہرا تعلق ہے جس کی وجہ سے مجھے ان کی زیادہ فکر ہے۔وہاں پر ایک لڑکی پر تیزاب پھینکا گیا اور ایک و اقعہ جس میں ایک بزرگ شخص کی دوستی کے دباو کی وجہ سے لڑکی نے خودکشی کی تھی، ایسے کئی سارے واقعات پیش آئے ہیں جس کی وجہ سے مجھے اس مسئلے کی سمجھ ہے اور میں نے اس پر کافی کام بھی کیا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں ماضی میں، میں نے اپنے علاقے کے معززین سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ وہ اس مسئلے کو اجاگر کریں، مجالس اور حجروں میں اس پر بات کرنے اور پرائمری اور آٹھویں جماعت کے طلبہ کے لیے سیمینار منعقد کریں اور آگاہی پیدا کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کریں۔ تاہم یہ سب بیکار تھا۔ دوسری بات، اسی شہر میں پرورش پانے کے بعد مجھے اس کی اچھی طرح سمجھ تھی۔ جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک اسلامی معاشرے کی تصویر کشی کی، تو میں نے اپنامعاشرہ زیادہ اسلامی شکل میں پایا اور میں نے سوچا، اسلامی ہونے کے باوجود یہ مسائل کیوں ہیں،توآئیے ان سے کوئی حل پوچھیں۔تاکہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نہ صرف اس مسئلے کو اجاگر کریں گے بلکہ اس ظلم سے نمٹنے کی ترغیب بھی دیں گے، جس سے معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی آجائے گی ۔
5۔سوال :آپ نے یہ سوال کیوں اٹھایا جس کا تعلق انسان کے کردار سے ہے؟ خواتین سے متعلق مسائل پر بات کیوں نہیں کی؟
جواب : اس کی وجہ یہ ہے کہ تقریباً کوئی بھی اس مسئلے کے بارے میں بات نہیں کرتااور یہ پورے ملک میں بہت عام ہے۔ خواتین کے مسائل پر ہزاروں لوگ کام کر رہے ہیں اور میں ان کی حمایت کرتا ہوں۔ تاہم اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ایسے مسئلے کو اٹھانا چاہتی تھی جسے اکثر بحث میں نظر انداز کیا جاتا ہے اور یہ ممنوع بن چکا ہے۔ لوگ بحث میں اسے نظر انداز کر دیتے ہیں اور جن کا اثر ہو سکتا ہے وہ اس پر بحث کرنا ایک شرمناک موضوع سمجھتے ہیں۔ اس لیے میں اسے اجاگر کرنا چاہتی تھی۔ یہ کسی کے کردار سے متعلق نہیں بلکہ جرم کی نوعیت کا ہے۔ میرےسوال کا مقصد اسے صرف مروت کے لیے نہیں بلکہ تمام بچوں کے لیے اٹھانا تھا۔ تاہم میں اسے ایک مثال کے طور پر دیکھتی ہوں، جیسا کہ ڈاکٹر صاحب کے تجربے کے مطابق مجھے اپنے علاقے سے زیادہ اسلامی معاشرہ نہیں مل سکا۔ یہ سوال ہر ان بچوں کے متعلق تھا جن کے کلپس ڈارک ویب پر فروخت کیے جاتے ہیں یا انسانی اسمگلنگ کا شکار ہوتے ہیں۔ میں نے دوسرے مسائل کو بھی اٹھایا، لیکن اس کو سوشل میڈیا پر زیادہ توجہ ملی۔
-6لوگ کہہ رہے ہیں آپ کے پیچھے کوئی ہے اور آپ کاکوئی خاص ایجنڈا ہے، اس بات میں کتنی سچائی ہے؟
جواب: نہیں، یہ بالکل غلط بات ہے اور میرے خلاف پروپیگنڈہ ہے۔ لوگ میری ذاتی زندگی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ تاہم میں ان پر توجہ نہیں دیتی کیونکہ میرا مقصد اس مسئلے کو اجاگر کرنا تھا اور وہ مقصد پورا ہو گیا ہے۔ ہر کوئی اس کے بارے میں بات کر رہا ہے، اور جو لوگ مجھ سے رابطہ کرتے ہیں، میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں، میں ان کا شکر گزار ہوں۔ اس سلسلے میں تنقید کرنے والے بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔میرے خیال میں لوگوں کو ڈاکٹر صاحب کے سوال و جواب کا معاملہ چھوڑ دینا چاہیے اور اصل مسئلے پر بات کرنی چاہیے جہاں بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے، تاکہ معاشرے کا اصلاح ہوسکے۔
7۔ سوال: سوشل میڈیا پر کچھ پوسٹس زیرگردش ہیں جس میں آپ نے مذہبی لوگوں اور ان کے پیروکاروں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، انہیں کچھ عجیب و غریب ناموں سے منسوب کیا گیا ہے، اس میں کیا منطق ہے؟
جواب: یہ کسی کو ٹارگٹ کرنا نہیں ہے بلکہ میں طنز کے انداز میں اصطلاح کرنا چاہتی ہوں ۔ یہ بہت زیادہ قابل بحث ہے اور وقت کی ضرورت بھی، ہم نے کئی بار یہ مسئلہ اٹھایا کہ یہ لوگ تعلیمات کے ذریعے سادگی نہ مانگیں ۔میں نے بہت سے ایسے مردوں کو دیکھا ہے جو تبلیغ کرتے ہیں لیکن اپنی زندگی تنگ بنائی ہوئی ہے۔ ان کے اہل خانہ خصوصاً ان کی بیگمات کسی کاروبار میں مشغول نہیں ہوتے، کسی نوکری کا انتخاب نہیں کرتے اور صرف سادگی و تنگ زندگی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں، جو ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔ تبلیغ ایک توازن کیساتھ معمول ہونا چاہیے ۔ان کو اپنے خاندان کی دیکھ بھال بھی کرنی چاہیے، جیسا کہ میں نے ایک بہت ہی قریبی دوست کی زندگی کو برباد ہوتے دیکھا ہے کیونکہ اس کا شوہر تبلیغ کے سلسلے میں باہر تھا اور وہ خاندانی دباؤ اور ان تمام چیلنجوں کو نہیں سنبھال سکتی تھی۔
8۔سوال: آپ کی ذاتی زندگی کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ آپ لبرل زندگی گزار رہی ہیں اور اس سلسلے میں آپ کو دھمکیوں کا بھی سامنا ہے، تو اس پر آپ کا کیا موقف ہے؟
جواب: یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ کچھ لوگوں نے سوال کونچوڑ لینے اور اصل مسئلے پر توجہ دینے کے بجائے مجھ پر ذاتی حملے کئے۔ جہاں تک میری ذاتی زندگی کا تعلق ہے تو میں لبرل نہیں بلکہ ایک خودمختار لڑکی ہوں۔ تاہم میری کچھ حدود ہیں۔ میں نے کبھی بھی اپنی ذاتی تصویریں فیس بک یا انسٹاگرام پر شیئر نہیں کیں، میں بہت کم پروفائل رکھتی ہوں اور عاجزانہ زندگی گزارتی ہوں۔ الحمدللہ، میں ایک باعمل مسلمان ہوں اور مجھے اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے کیلئے کسی کو وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ میرا اور میرے اللہ کے درمیان معاملہ ہے۔ میں اپنے بھائی کی تعلیم کا خرچہ اٹھاتی ہوں اور اپنی بیمار ماں کی دیکھ بھال کرتی ہوں۔ ہم بہت چھوٹے تھے کہ میرے بابا ہمیں چھوڑ گئے۔ تاہم ڈاکٹر ذاکر نائیک سے سوال کے بعد آن لائن بدسلوکی، ذاتی حملے، قتل، غلط ناموں سے پکارنااور مجھے نشانہ بنانا معمول بن گیا۔ جن لوگوں کے پاس میرا رابطہ نمبر ہے انہوں نے میرے ان باکس کو توہین آمیز الفاظ سے بھر دیا ہے، جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے ، توہین رسالت کا الزام لگانے اور کمیونٹی میں بدنام کرنے کی حد تک کوششیں کئی گئیں۔ مجھے بدعتی کہا گیا ہے۔ ہر قسم کے ذاتی حملے ہوئے ۔ میرے چھوٹے بھائی اور بیمار ماں کو نشانہ بنایا گیا ۔ تاہم کئی لوگ بھی اس سلسلے میں میری مدد کے لیے مجھ تک پہنچے ہیں اور میں ان کا بے حد مشکور ہوں۔ ہاں، میں فکر مند ہوں اور اس کا مجھ پر اور میرے خاندان پر بہت بڑا نفسیاتی اثر پڑا ہے۔
9۔سوال:کیا ان خطرات اور چیلنجوں کے باوجود آپ اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں گی؟
جواب: یہ بہت اچھا سوال ہے، بنیادی طور پر میں کتابیں پڑھتی ہوں، سفر کرتی ہوں اور بہت مطالعہ کیا ہے، اس سے میں نے محسوس کیا کہ بہت کم لوگ ہیں جو انسانیت کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے بارے میں فکر مند ہے، لیکن بہت کم لوگ دوسروں کی فکر کرتے ہیں۔ اس وقت میں اپنی استعداد کے مطابق بہت کم کام کر رہی ہوں، جیسا کہ میں کچھ طلباء کو پڑھاتی ہوں، چند غریب لوگوں کی صحت اور ادویات وغیرہ کے لیے مالی امداد بھی کرتی ہوں، میں ابھی اتنا ہی کر سکتی ہوں، لیکن اگر زندگی نے مجھے موقع دیاتو میں دوسروں کی مدد کرنے کی پوری کوشش کروں گی۔ میں کچھ کھونے سے نہیں ڈرتی کیونکہ کوئی بھی نقصان کسی کے والد کے کھونے سے زیادہ نہیں ہوسکتا، جس کا میں نے بہت چھوٹی عمر میں سامنا کیا۔ اس لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون کیا کہتا ہے، میں ہمیشہ وہی کروں گی جو معاشرے کیلئے فائدہ مند ہو ۔
10۔سوال: کہا جا رہا ہے کہ آپ ایک اداکارہ کے ساتھ اپارٹمنٹ میں رہ رہی ہے، کیا یہ سچ ہے؟
جواب: ہاہاہا، کاش میری زندگی میں وہ عیش و آرام ہوتا۔ میں بہت سخی انسان ہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو میں خود کو بڑی خوش قسمت سمجھتی ۔ کاش میری کوئی ایسی قریبی دوست ہوتی۔