چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے خیبر پختونخوا میں 218 شیشم درخت کاٹنے کے خلاف کیس سماعت کی۔
عدالت نے خیبرپختونخوا میں جنگلات کے تحفظ سے متعلق کیس نمٹا دیا، اس دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئینی اداروں کے لیے وہی الفاظ استعمال ہونے چاہئیں جو آئین میں لکھے ہوئے ہیں، بس ایک دن کے لیے برداشت کر لیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے 26 ویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اخبار میں لکھا گیا ہے کہ نئی ترمیم میں ماحولیات کے تحفظ سے متعلق کوئی شق شامل کی گئی ہے، جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختوںخوا نے کہا کہ جی ہاں 26 ویں آئینی ترمیم کے آرٹیکل 9 اے میں کہا گیا ہے کہ ہر شہری صحت مندانہ ماحول کا حقدار ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئینی ترمیم میں ماحولیات کے تحفظ کی شق شامل کرنا قابل تعریف ہے، دنیا کے چند ممالک کی طرح پاکستان کے آئین میں بھی ماحولیات کے تحفظ کا ذکر اب موجود ہے، صاف اور شفاف ماحول کو آئین میں شامل کرنے سے قدرتی ماحول کو تحفظ ملے گا۔
چیف جسٹس کا مزیز کہنا تھا کہ سائنسی طور پر بھی ثابت ہے قوموں کی اچھی صحت اچھے ماحول پر منحصر ہے، اسلام نے بھی صاف ستھرے ماحول کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، آلودہ ماحول سے جنگلات، دریا اور ندیاں متاثر ہوتی ہیں، ماحولیاتی آلودگی کے سبب کئی شہروں میں رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختوںخوا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سارا بوجھ آپ پر ہی ہے کوئی اورلاء افسر کیوں نہیں آتا، جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے جواب دیا کہ اب آگے باقی لا افسران بھی آیا کریں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معزز اور عزت مآب جیسے الفاظ آئینی اداروں کے لیے استعمال نہ کیا کریں، آئینی اداروں کے لیے وہی الفاظ استعمال ہونے چاہیں جو آئین میں لکھے ہوئے ہیں، بس ایک دن کے لیے برداشت کر لیں، جس پر خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے کہا کہ ایسا نہیں ہے ہمیں آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔