میری اکثر تحریروں کی شروعات مزاح سے ہوتی ہے تاکہ پڑھنے والا خوب پرمسرت ہوکر میری بعد میں بور اور سخت ہونے والی تحریر کو بھی سہہ سکے،
ہمارے پریس کلب کے انتخابات شروع ہونے والے ہیں اس لئے آج ہم نے اس پر طبع آزمائی کا سوچا،
ہر سال کی طرح امسال بھی ناصربنگش بھائی نے صدارت کے لئے کاغذات جمع کئے ہیں جو ظاہر سی بات کہ حسب معمول وہ صرف کاغذات جمع کرنے اور اپنا کبھی نہ مکمل ہونے والے منشور کی اشاعت تک ہی محدود ہونگے،بعد میں انتخابات سے خود کو ڈرا کرادینگے،پہلی بات تو یہ ہے کہ اس روئے زمین پر یہ پہلا بنگش ہے جو کاٹلنگ میں پیدا ہوا، دوسری بات یہ کہ اس کا ایک بھائی حسن خان صاحب کا کہنا ہے کہ ہم بنگش نہیں اور ناصر بھائی بضد ہیں کہ نہیں ہم بنگش ہی ہیں،باقی ذمہ داری کا حال یہ ہے کہ صبح گیارہ بجے گھر سے ٹیفن لیکر آفس جاتے ہیں اور پھر بارہ بجے اسی ٹیفن کا کھانا گھر میں تناول فرماتے ہیں،منشور دوسری شادی کا شئئر کررہاہےاور خود گھر میں سارا دن برتن اور کپڑے دھوتے ہیں،باقی اونٹ کی طرح سیدھے بندے ہیں اپنی لائن پر جاتے ہیں،جو دل میں ہوتا ہے وہی منہ پر کہتے ہیں،دل کے بڑے صاف ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہمارے بہت جگری ہیں بس یہ گروپس میں بار بار منشور شئیر کرنے پر مجھے غصہ آیا تھا،
اب آتے ہیں الیکشن اور امیدواروں کی طرف،
ہمارے امیدواروں میں اکثر بہت قابل اور باصلاحیت ہیں،البتہ چند ایسے ہیں جو منتخب ہوکر ووٹر حضرات مطلب ہمیں ایسے بھول جاتے ہیں جیسے پولیو ورکرز بچے کو پولیو کے قطرے پلاکر ان کا نام تک بھول جاتے ہیں اگرچہ قطرے پلانے سے پہلے بچے کےساتھ ماں جیسی محبت سے پیش آتے ہیں،
انتخابات کے بعد بھی ہم وہی صحافی ہوتے ہیں اس لئے ہماری عزت افزائی کا سلسلہ الیکشن کے بعد بھی اسی طرح برقرار رکھنا چاہئے جس طرح الیکشن سے پہلے ہوتاہے،الیکشن والے دن ہمیں گوشت چاول کھلایاجاتاہے اور بعد میں کوئی پکوڑا تک کھلانے کا روادار نہیں ہوتا،
باقی کوئی ایسی مکینزم بنانی چاہئے کہ الیکشن سے پہلے پیش کئے گئے منشور کے بارے بعد میں جائزہ لینا چاہئے کہ بھئی منشور پر کس حد تک عمل درآمد ہواہے؟اس طرح آنے والے الیکشن میں کم از کم ناصر بنگش جیسا کوئی جھوٹ موٹ کا منشور پیش نہیں کریگا،
باقی حالیہ الیکشن میں ایسے امیدواروں نے بھی کاغذات جمع کئے تھے جو کبھی پریس کلب آتے ہی نہیں،ان میں بعض فقط شام کو ہی تخم ملنگا پینے کے لئے آتے ہیں اور پھر محفل شام کے بعد پوری ایک سلطنت قائم اور خیالی دنیا بناکر اپنے اپنے گھروں کو جاتے ہیں اور اگلی شام تک وہ پریس کلب اور صحافیوں سے خود کو دور کرکے پھر اگلی شام واپس آتے ہیں،
جنرل سیکرٹری کے لئے ایک ایسی شیطان نما شخصیت کا نام بھی پہلی لسٹ میں دیکھا تھا جو اگر انڈیا پاکستان آپس میں راضی نامہ کرلیں تو ان کو شائد ہارٹ اٹیک آجائیگا کہ کیوں امن قائم کیا جارہاہے؟موصوف ایک دوسرے کو لڑانے کو ہی ثواب سمجھتے ہیں،یہ واحد ایسا انسان ہے جو سنت نبوی کے مطابق داڑھی رکھ کر پھر پانچ وقت کی نماز قائم کرکے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھلنے کی ترغیب بڑی دیانتداری سے دیتے ہیں،مذکورہ آدمی باقاعدہ درود شریف پڑھ اور داڑھی مبارک پر ہاتھ ہاتھ پیر کر ایسی چغل خوری فرماتے ہیں کہ سامنے والا کوئی دینی بات سمجھ کر سننے پر مجبور ہوتاہے،
اسی طرح کچھ امیدواروں کے نام اور شخصیتیں بھی بالکل مختلف ہیں، جیسے عقل سے مشابہت رکھنے والی شخصیت عقل سے پیدل ہے،عبد و زاہد جیسے نام رکھنے والا عید اور جمعے کی نماز نہیں پڑھتے،ساقی پر مشہور امیدوار کبھی کسی کو ایک کپ قہوہ پلانے کا روادار نہیں،خطروں کے کھلاڑی سے شہرت پانے والے کو یہ معلوم نہیں کہ کرکٹ میں کتنے کھلاڑی ہوتے ہیں،فٹ بال کا میدان کتنے فٹ کا ہوتاہے؟
اسی طرح حساب کتاب درست رکھنے پر مشہور شخصیت محلے میں خیرات بھی چوری چھپے کھاتاہے،
اسی طرح گورننگ باڈی کے امیدواروں میں ایک ایسے امیدوار کا نام بھی دیکھا جیسے اپنے اڑوس پڑوس میں کوئی جانتاتک نہیں اور نہ ہی ان کو شائد اپنے گھر سے کوئی ایک ووٹ ڈالنے کی زحمت گوارہ کریگا،وہ بھی اب شائد کمپئن چلائینگے کہ ہمیں بھی ووٹ دےدو، ویسے کس مننہ سے کعبہ جاوگے والی بات ہوگی؟
اس کے علاوہ موجودہ کابینہ کے تمام اراکین نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن چند کمیٹیوں نے بس وقت گزاری کردی ہے،
چند امیدوار تو ایسے ہیں جو اپنے پوسٹرز بھی سادہ چھپوا کر ہمیں رنگین خواب دکھائیں گے،
بہرحال ووٹ ڈالنا چاہئے اور خوب سمجھ کر ڈالنا چاہئے تاکہ بعد میں عزت نفس مجروح ہوتے ہوئے تکلیف توڑی کم ہو،
منتخب ہونے والوں کی خدمت میں بھی مودبانہ عرض ہے کہ ہم کوئی عام ووٹرز نہیں صحافی اور آپ کے دوست ہیں
لہذا دوست سمجھ کر ہمارے ساتھ پھر گزارہ کرلیا کریں،
خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو!